سب کے ہونٹوں پر ہمیشہ اس کا افسانہ رہے

سب کے ہونٹوں پر ہمیشہ اس کا افسانہ رہے
سارا عالم میرے دیوانے کا دیوانہ رہے


ساقیا یوں ہی ہمیشہ حال مے خانہ رہے
رقص میں ساغر رہے گردش میں پیمانہ رہے


دل کا عالم دیکھ میری یاد میں یوں غرق ہے
شمع پر جیسے تصدق کوئی پروانہ رہے


گھر میں بچے بھوک سے بیتاب ہیں بے حال ہیں
باپ لیکن سوچتا ہے ٹھاٹ شاہانہ رہے


یہ خدا کی مصلحت ہے ورنہ اس دربار میں
مستحق جو ہے محبت کا وہ بیگانہ رہے


آدمی بدنام ہو جاتا ہے لفظوں کے طفیل
گفتگو کرنے میں انداز شریفانہ رہے


آفتوں کا اور بلاؤں کا نہ ہو اس پر نزول
سایۂ رحمت میں شاطرؔ تیرا کاشانہ رہے