نظر اداس ہے دل موج اضطراب میں ہے

نظر اداس ہے دل موج اضطراب میں ہے
ترے بغیر مری زندگی عذاب میں ہے


جو اس کے دیدۂ بدمست میں ہے اے ساقی
کہاں وہ نشہ و مستی تری شراب میں ہے


تڑپ رہی ہے نظر جس کو دیکھنے کے لئے
وہ اپنا چہرہ چھپائے ہوئے نقاب میں ہے


بسا کے پیار کی خوشبو میں جس کو بھیجا تھا
ابھی تک آپ کا وہ خط مری کتاب میں ہے


میں حسن و عشق کی باتوں سے کیوں کروں پرہیز
مری حیات ابھی عالم شباب میں ہے


نگاہیں ان کی مرے دل پہ ہوں نہ ہوں شاطرؔ
مری غزل تو حسینوں کے انتخاب میں ہے