سب اک نہ اک سراب کے چکر میں رہ گئے

سب اک نہ اک سراب کے چکر میں رہ گئے
کیا پھیر آدمی کے مقدر میں رہ گئے


کیا درد مشترک تھا ضمیر سکوت میں
کھو کر جو ہم اداس سے منظر میں رہ گئے


یہ دشت زیست اور یہ خارا تراشیاں
جلوے ہنر کے سینۂ آزر میں رہ گئے


دیکھا صنم کدوں کو تو اکثر ہوا خیال
وہ نقش جاوداں تھے جو پتھر میں رہ گئے


دروازے وا تھے پھر بھی عجب بے دری سی تھی
ہم خود اسیر ہو کے کھلے گھر میں رہ گئے


یوں بھی غم و نشاط کا قصہ نہ ہو تمام
انسان ڈھل کے یاس کے پیکر میں رہ گئے


ملتا نہیں کوئی سر شوریدہ اب سحرؔ
پتھر ہی بس دیار ستم گر میں رہ گئے