ساز ہستی پہ اگر گاؤ تو کچھ بات بنے

ساز ہستی پہ اگر گاؤ تو کچھ بات بنے
شعر بن جائیں جو یہ گھاؤ تو کچھ بات بنے


یہ فتوحات خلا کیا ہیں بجز تار حریر
ذات کے پردوں کو سرکاؤ تو کچھ بات بنے


اہل بینش ہو بنے آئیوری ٹاور میں تو کیا
کبھی دیوانوں سے ٹکراؤ تو کچھ بات بنے


ظلمت شب میں یہ تنہائی گلا گھونٹ نہ دے
شیشۂ کرب ہی چمکاؤ تو کچھ بات بنے


علم و دانش کی مہکتی ہوئی پروائیو کاش
میرے سینے میں اتر آؤ تو کچھ بات بنے


ظلم کا ساتھ نہ دو مصلحت اندیشی میں
آؤ حق گویوں میں آ جاؤ تو کچھ بات بنے


جسم میں روح کرائے کے مکاں میں جیسے
روح کو اپنا بنا پاؤ تو کچھ بات بنے


ان رذیلوں کی زباں دانی عیاذاً باللہ
سید انشاءؔ کو بلا لاؤ تو کچھ بات بنے