کب ہوا مٹھی میں آتی ہے عبث دوڑا کیا

کب ہوا مٹھی میں آتی ہے عبث دوڑا کیا
جانے کیا کیا کل یوں ہی میں رات بھر سوچا کیا


اب تو اس ترک تعلق میں مجھے بھی لطف ہے
جو کیا تم نے مری خاطر بہت اچھا کیا


جیسے وہ بھی فلسفے کے نکتۂ پیچیدہ ہوں
میری باتیں میرے بدلے غیر سے سمجھا کیا


پھر مجھے دریافت کرنے کی اسے حسرت رہی
وہ مجھے دیمک لگے اوراق میں ڈھونڈھا کیا


خو میں چاہے تند ہو دل سے نہایت نیک ہے
بھول کر سب پچھلی باتیں میرے پاس آیا کیا


تشنگی میرا مقدر ہے مجھے پانی سے کیا
جانتا تھا پھر بھی خیمہ نہر پر برپا کیا


کل وہی شب تھی جو آتی ہے نصیبوں سے مگر
اور سب سوتے رہے بس ایک میں جاگا کیا


جب نئی آواز اٹھی قتل کرنے آئے لوگ
اک مداری سانپ کا سر مان کر کچلا کیا