نشتر سی دل میں چبھتی ہوئی بات لے چلیں
نشتر سی دل میں چبھتی ہوئی بات لے چلیں
آئے ہیں تو خلوص کی سوغات لے چلیں
ویرانیوں کے گھر میں مرا دم ہی گھٹ نہ جائے
آ اے خیال یار تجھے ساتھ لے چلیں
جب روشنی تھی چلتا تھا سایہ بھی ساتھ ساتھ
اب ہے اندھیری رات کسے ساتھ لے چلیں
جس میں امید و یاس فریب نظر رہی
اس ہفت خوان غم کی روایات لے چلیں
شمع امید جس میں فروزاں نہ ہو سکی
اب اس کی بزم ناز میں وہ رات لے چلیں
کچھ بیکسوں کے گھر جلے کچھ بے دیار ہیں
ان کے حضور اشکوں کی برسات لے چلیں
رنگ شفق میں خون شہیداں ہے جلوہ گر
اپنے عظیم ملک کی سوغات لے چلیں
اپنے نگر میں بس یہی کرچیں ہیں ہر طرف
کچھ گوہر تلافیٔ مافات لے چلیں