ساقی کو اگر فکر مداوا بھی نہیں ہے

ساقی کو اگر فکر مداوا بھی نہیں ہے
اس کم نگہی کا ہمیں شکوہ بھی نہیں ہے


وہ جور سے باز آیا ہو ایسا بھی نہیں ہے
اور شہر میں ظالم کہیں رسوا بھی نہیں ہے


اچھا ہے اگر آپ کا ہو جائے اشارہ
طوفان کئی روز سے اٹھا بھی نہیں ہے


پلکوں پہ چمکنے لگے اشکوں کے ستارے
ہونٹوں پہ تبسم ابھی آیا بھی نہیں ہے


کس دور میں تم مہر و وفا ڈھونڈ رہے ہو
اب دل میں کہیں خوف خدا کا بھی نہیں ہے


کیا جانئے کیا بات ہے کیا بھول گئے وہ
مدت ہوئی دل زور سے دھڑکا بھی نہیں ہے


اے شوقؔ غزل کہتے ہو اور تم کو ابھی تک
الفاظ برتنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے