سامنا زندگی کا کر تو سہی
سامنا زندگی کا کر تو سہی
تپ کے اس آگ میں نکھر تو سہی
ظلم سے آنکھ چار کر تو سہی
ہو نہ جائے یہ بے اثر تو سہی
دولت عمر جاوداں مل جائے
تو بنام حیات مر تو سہی
تیری تصویر بول اٹھے گی
میری آنکھوں کا رنگ بھر تو سہی
ساحل بحر میں کہاں گوہر
ذرا گہرائی میں اتر تو سہی
حق و باطل اگر سمجھنا ہے
پستیٔ فکر سے ابھر تو سہی
آبلے پھول بن کے مہکیں گے
راہ پرخار سے گزر تو سہی
دیکھ کتنی لطیف دھڑکن ہے
قلب گیتی پہ ہاتھ دھر تو سہی
زندگی کتنی خوب صورت ہے
زندگی پر نگاہ کر تو سہی
پاس اپنے کوئی سپر بھی نہیں
وقت اچھا ہے وار کر تو سہی