ابر و شاکر رہے شاداں رہے
ابر و شاکر رہے شاداں رہے
خوش رہے جس حال میں انساں رہے
تم کو آئینے میں کیا آیا نظر
مثل آئینہ جو تم حیراں رہے
اس محبت کا برا ہو عشق میں
چار دن بھی تو نہ ہم شاداں رہے
تھے وہ حسن و عشق کے راز و نیاز
قید زنداں میں مہ کنعاں رہے
تم نہیں ہو تو تمہاری یاد ہے
خانۂ دل کس لئے ویراں رہے
قتل کر کے ہم کو وہیں منفعل
اور ہم شرمندۂ احساں رہے
مے سے توبہ اس گھٹا میں محتسب
کیوں فرشتہ بن کے ہر انساں رہے
کھل کے کلیاں دے رہی ہیں یہ سبق
آدمی کانٹوں میں بھی خنداں رہے
باغ میں دو دن کو آئی ہے بہار
مثل شبنم کوئی کیوں گریاں رہے
میرے سینے میں جو تھے الفت کے داغ
روز روشن کی طرح تاباں رہے
کیا حرم کیا دیر ہیں جھگڑوں کے گھر
ان سے شنکرؔ دور ہی انساں رہے