عشق کی اتنی بڑھیں رعنائیاں
عشق کی اتنی بڑھیں رعنائیاں
حسن کو آنے لگیں انگڑائیاں
ایک وہ ہیں اور ان کی انجمن
ایک میں ہوں اور مری تنہائیاں
یوں نہ دیکھو عارض گل رنگ کو
آئنے میں پڑ رہی ہیں جھائیاں
پھر ابھر آئی ہیں چوٹیں عشق کی
پھر محبت کی چلیں پروائیاں
اس طرح آتی ہے دل میں ان کی یاد
دور پر جیسے پڑیں پرچھائیاں
ابتدائی مرحلے وہ عشق کے
ہائے شنکرؔ وہ مری رسوائیاں