مری قسمت میں وصل اس کا اگر اے آسماں ہوتا
مری قسمت میں وصل اس کا اگر اے آسماں ہوتا
تو تو بھی مہرباں ہوتا خدا بھی مہرباں ہوتا
ستم کے بعد ہوتا ہے کرم بھی یہ اگر سچ ہے
مرے دل پر بھی ایسا ہی ستم اے جان جاں ہوتا
بلائیں لے کے دشمن مر گیا میری بلا سمجھے
سمجھ میں میری جب آتا تماشا یہ یہاں ہوتا
زمیں پر سونے والوں کو حقارت سے نہ ٹھکراتا
ہماری طرح گردش میں جو تو اے آسماں ہوتا
چمن اودی گھٹا ساقی صراحی اور پیمانہ
یہ سب سامان ہوتے شیخ کا پھر امتحاں ہوتا
سنا ہے فصل گل آئی ہوئی پھر گلشن آرائی
چمن میں کاش اپنا بھی قفس اے باغباں ہوتا
وہ میرا رو کے کہنا ان کے شنکرؔ ہنس کے فرمانا
ارے الفت میں کوئی بھی نہیں ہے شادماں ہوتا