جب دل کی خلش بڑھ جاتی ہے مجبور جب انساں ہوتا ہے
جب دل کی خلش بڑھ جاتی ہے مجبور جب انساں ہوتا ہے
جینا جسے مشکل ہو جائے مرنا اسے آساں ہوتا ہے
آئی تھی جوانی ہم پر بھی ہم نے بھی بہاریں دیکھی ہیں
اس دور سے ہم بھی گزرے ہیں اک خواب پریشاں ہوتا ہے
بے کار ہے شکوہ اپنوں کا بے سود شکایت غیروں کی
جب وقت برا آ جاتا ہے سایہ بھی گریزاں ہوتا ہے
میں ان کے ستم سب بھول گیا مجھ کو تو کرم یاد آتے ہیں
وہ سر بھی اٹھا سکتا ہے کبھی جو بندۂ احساں ہوتا ہے
ہر وقت الجھتے رہتے ہیں یہ ہاتھ کسی کے دامن سے
جب ہوش مجھے آ جاتا ہے میرا ہی گریباں ہوتا ہے
ہر ایک کو جانا پڑتا ہے دنیا کے مسافر خانے سے
کچھ روز اقامت ہوتی ہے کچھ روز کا مہماں ہوتا ہے
اے زاہد خود بیں رحمت حق آغوش میں اس کو لے لے گی
جو اپنے گناہوں پر دل میں ہر وقت پشیماں ہوتا ہے
جو دیکھ رہے ہیں ساحل سے یہ حال بھلا وہ کیا جانیں
طوفاں سے گزرنے والوں کو اندازۂ طوفاں ہوتا ہے
یہ عشق و وفا کی باتیں ہیں پوچھے کوئی شنکرؔ کے دل سے
وہ سامنے جب آ جاتے ہیں ہر سانس غزل خواں ہوتا ہے