روس یوکرائن جنگ، اصل خسارہ کس کا ہورہا ہے؟

یوکرائن پر   روسی حملہ آج چوتھے پانچویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔   مغربی ممالک  کی جانب سے پابندیوں اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس سے روس کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا بلکہ یورپ خود زیادہ متاثر ہوگا اور کوئی کہتا ہے کہ نہیں روس تو بلکل تنہا ہو کر رہ جائے گا۔  کوئی کہتا ہے کہ امریکہ  کو روس کی مذمت بلکل نہیں جچتی۔ وہ تو خود جنوبی و شمالی امریکہ سمیت ایشیا و افریقہ میں اسی قسم کی حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ۔ یوکرائنی محاذ جنگ سے بھی طرح طرح کی خبریں ہی آ رہی ہیں۔   زمینی صورتحال کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے  کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ظاہر ہے جب تندور میں آگ  لگی ہو تو ہر کوئی اپنی روٹی لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے جنگ کی صورتحال  میں پہلی ہلاکت سچ کی ہی ہوتی ہے۔

  خیر میں آج کے مضمون میں  یوکرائنی  بحران میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے تو بیٹھا نہیں ہوں۔  کیونکہ اس قسم کے حالات میں اکثر سچ اور جھوٹ بہت ریلٹو سا ہو جاتا ہے۔ یعنی جو میرے لیے سچ ہے وہ ہو سکتا ہے آپ کے لیے جھوٹ ہو اور جو آپ کے لیے سچ ہو وہ میرے لیے جھوٹ ہو۔ لیکن اس بات کے لیے کہ روسی حملے سے بڑے پیمانے پر عام انسانوں کی زندگی تلپٹ ہو کر رہ گئی ہے ہمیں کسی سچ اور جھوٹ کے فیصلے کی ضرورت نہیں۔ مہاجرین کی بحالی و فلاح پر کام کرنے  والی اقوام متحدہ کی تنظیم  UNHCR کا کہنا ہے  کہ تقریباً پونے چار لاکھ افراد پناہ گزیں بن کر یوکرائن کے ہمسایہ ملک پولینڈ، سلوواکیا، ہنگری وغیرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ خدشات ہیں کہ یہ تعداد چالیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ آج تو خبریں آ رہی ہیں کہ ان ممالک میں رضاکار باہیں پھیلائے پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نے اپنے دل اور گھر دونوں کے دروازے ان پر کھول دیے ہیں۔ اچھی بات ہے اگر ایسا ہو رہا ہے۔  مصیبت زدہ لوگوں کو پناہ ملنی چاہیے۔

   لیکن اس سب صورتحال میں سوال یہ ہے کہ  یورپ کے ممالک میں مہاجرین کے لیے باہیں آخر کب تک کھلی رہیں گی؟ اس قسم کی باہیں تو 2015 میں شام، لبیا، عراق، فلسطین، یمن، الجیریا وغیرہ سے کٹے پھٹے لوگون کے لیے بھی کھلی تھیں۔ لیکن پھر کیا ہوا۔   سال ڈیڑھ ہی گزرا یا اس سے بھی کم کہ مہاجرین کی آمد  بند کرو کی آوازیں یورپ کے طول و عرض سے سنائی دینے لگیں۔  ان آوازوں کی شدت سب سے زیادہ انہیں ممالک سے تھی جہاں اب مہاجرین جا رہے ہیں۔  دائیں بازو کی جماعتیں خوب ان آوازوں پر اپنی سیاست چمکانے لگی تھیں۔  مہاجرین کو ایسی طاقت بنا کر پیش کیا جانے لگا تھا   جس سے یورپی اقدار، معاشرت، معیشت اور سماج ہر چیز کو خطرہ لاحق ہو۔ ان کے ہاں سے کوئی جرم کی خبر ہوتی تو  اسے خو مرچ مسالہ لگا کر میڈیا میں پیش کیا جاتا۔ بڑی بڑی شہ سرخیاں لگتیں اور لمبی لمبی بحثیں ہوتی۔ پورے یورپ کا ماحول بدل کر رہ گیا تھا۔ بہت سے ہوش مند افراد  تشویش کی گھنٹیاں بجانے لگے تھے۔  ایسا نہیں ہے کہ اب یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ سب  جوں کا توں ہے بلکہ بڑھ ہی رہا ہے۔  نہ تو لبیا، شام و عراق وغیرہ  میں امن ہوا ہے، نہ ہی ان ممالک میں مہاجرین جانے بند ہوئے ہیں۔

 اب یوکرائن سے   بھی مہاجرین کا تانتا بندھا ہوگا۔  اوپر  سے روس سے بگڑے تعلقات پر جو معاشی دباؤ ہوگا وہ الگ۔  اس سب صورتحال میں مہاجرین کی وجہ سے یورپ کے عام عوام کتنے بپھریں گے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔  ظاہر ہے ان کی زندگیاں متاثر ہوں گی۔ ان کے شب و روز بدلیں گے، ان کی معیشت متاثر ہو گی اور اوپر سے جلتی  پر سیاسی جوکربھی تیل چھڑکیں گے ۔

               یہ سب تو ہوگا بلکہ ہو رہا ہے، لیکن ذرا غور کریں کہ تمام تر تنازعات میں قیمت کون چکا رہا ہے۔ ایک عام آدمی۔  وہ کہیں سے  بھی ہے، کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہے، وہ متاثر ہو رہا ہے۔ آپ اس میں خود روس کے شہریوں کو بھی شامل کر لیں۔ کیا جب یورپی ممالک روس پر پابندیاں لگائیں گے تو ان کی زندگیاں ایسے چل پائیں گی جیسے آج چل رہی ہیں۔ جب وہ روس سے باہر نہ اپنے پیسے بھجوا پائیں گے اور نہ منگوا پائیں گے، نہ روسی پاسپورٹ پر ان کو سفر کی وہ سہولیات میسر ہوں گی جو آج میسر ہیں تو سوچیں ان کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔  اسی طرح جب یورپی ممالک میں  گیس اور تیل  کے نرخ چڑھیں گے تو کون متاثر ہوگا۔ لیکن کوئی نہیں ہے جو ان کے مفادات کا خیال کر سکے۔  آج تک کوئی ایسا  ماڈل ایجاد نہیں ہوا جس سے تنازعات پیدا کر کے عام عوام کا بھلا کیا جا سکے۔  جنگ چھڑتی ہے تو یہ کسی بھی صورتحال میں نیٹ لوزر ہی ہوتے ہیں۔    فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے۔ جنگ روکنے کے لیے ان فائدہ اٹھانے والوں کو لگام ڈالنا ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

متعلقہ عنوانات