رخ نظر کا کبھی ادھر نہ ہوا
رخ نظر کا کبھی ادھر نہ ہوا
دل کو حسرت رہی جگر نہ ہوا
ہجر کی شب تو جان لیوا تھی
دن جدائی کا بھی بسر نہ ہوا
اس کے الفاظ دل میں چبھتے ہیں
کوئی فقرہ بھی بے اثر نہ ہوا
بزم میں سو مقام بدلے ہیں
رخ تمہارا کبھی ادھر نہ ہوا
وصل لکھا تھا میری قسمت میں
بے کسی دیکھیے مگر نہ ہوا
ہجر نے دم پہ یہ بنا دی تھی
ہم سے نالہ بھی رات بھر نہ ہوا
عمر بھر اس کی تاک ہی میں رہے
دھیان اپنا ادھر ادھر نہ ہوا
اس کے جلوے سے تھا جہاں معمور
غیر کا ذکر بھول کر نہ ہوا
اس کو عاشق نہ سمجھو اے شنکرؔ
جو فدا اس کے نام پر نہ ہوا