رخ کی رنگت گلاب کی سی ہے
رخ کی رنگت گلاب کی سی ہے
اور چمک آفتاب کی سی ہے
کمسنی میں وہ آفت جاں ہیں
جو ادا ہے شباب کی سی ہے
آپ کے ہوتے حور کو چاہیں
کیا وہ صورت جناب کی سی ہے
غنچہ میں کوئی بات بھی کہیے
دہن لا جواب کی سی ہے
آنکھیں نرگس لڑاتی ہے ہم سے
یہ بھی اس بے حجاب کی سی ہے
اے گل تر ترے پسینے میں
رنگ اور بو گلاب کی سی ہے
نہ ہو باور تو دیکھیں آئینہ
شکل اس میں جناب کی سی ہے
روشنی ماہ و مہر انور میں
کب رخ لا جواب کی سی ہے
ابھی ابھرے ابھی مٹیں گے ہم
اپنی ہستی حباب کی سی ہے
کیوں نہ چومیں تمہاری صورت کو
یہ خدا کی کتاب کی سی ہے
طرز ان کے ستم کی اے صابرؔ
کرم بے حساب کی سی ہے