رندوں کا ظرف ساقی تو دیکھ آزما کے

رندوں کا ظرف ساقی تو دیکھ آزما کے
گر زہر بھی عطا ہو پی لیں گے مسکرا کے


اس میکدے سے باہر اتنا ہمیں بتا دے
ساقی سکوں ملے گا کس انجمن میں جا کے


بادہ کشوں کے کوئی یہ حوصلے تو دیکھے
محفل میں پی رہے ہیں واعظ کو مے دکھا کے


اب میکشوں کا پینا کار ثواب ٹھہرے
ساغر چھلک رہے ہیں ہاتھوں میں پارسا کے


توبہ بھی کی تھی شاید پیمان ترک مے بھی
سب کچھ بھلا دیا ہے کالی گھٹا نے چھا کے


جس دل میں آرزو ہو جنت کو دیکھنے کی
دیکھے وہ آج جنت ان کی گلی میں جا کے


جینا ہو اب کہ مرنا ڈوبیں کہ پار اتریں
کشتی ہے اپنی شائقؔ ہاتھوں میں ناخدا کے