یہ کشمکش دل بھی کچھ کم نہیں محشر سے
یہ کشمکش دل بھی کچھ کم نہیں محشر سے
ہر فتنہ جواں ہو کر اٹھتا ہے مرے گھر سے
یہ مہر و مہ تاباں اس درجہ حسیں کب تھے
پائی ہے یہ تابانی ان کے رخ انور سے
مے خوار کی محفل میں پھر دور شراب آیا
ٹکرانے لگے ساغر پھر بزم میں ساغر سے
اس بزم مسرت کی زینت کا بیاں کیا ہو
ملتا ہے سماں بالکل فردوس کے منظر سے
مت دیکھ حقارت کی نظروں سے اسے ناداں
یہ چیز ہے مے واعظ ملتی ہے مقدر سے
اس محفل رنداں میں کیا کام تکلف کا
کم ظرف ہیں وہ شائقؔ جو پیتے ہیں ساغر سے