دست ساقی میں چھلکتا جام ہے
دست ساقی میں چھلکتا جام ہے
پینے والا لرزہ بر اندام ہے
کیوں رخ انور ہے زلفوں میں نہاں
میری نظروں میں سحر بھی شام ہے
اپنے انداز کرم کو دیکھیے
میری توبہ پر عبث الزام ہے
چلتے چلتے جس جگہ ٹھہرے قدم
میری منزل بس اسی کا نام ہے
ہے کوئی محروم کوئی شاد کام
کیا تری بخشش اسی کا نام ہے
ان کا وعدہ اور ایفا کی امید
یہ ترا شائقؔ خیال خام ہے