روشنی کے سلسلے خوابوں میں ڈھل کر رہ گئے

روشنی کے سلسلے خوابوں میں ڈھل کر رہ گئے
جتنے منظر تھے سرابوں میں بدل کر رہ گئے


شعبدے ہی شعبدے پھر تالیاں ہی تالیاں
ہم ہی ناداں تھے کھلونوں سے بہل کر رہ گئے


دیکھتے ہی دیکھتے بازار خالی ہو گیا
لوگ اپنی ہی صداؤں سے دہل کر رہ گئے


وہ تمازت تھی کہ جنگل بھی دھواں دینے لگے
لہلہاتے کھیت کیا سائے بھی جل کر رہ گئے


لفظ گونگے تو نہ تھے پر بات ادھوری رہ گئی
تذکرے کتنے زبانوں پر مچل کر رہ گئے