رستے کتنا تھک جاتے ہیں

رستے کتنا تھک جاتے ہیں
پھر بھی منزل تک جاتے ہیں


پتوں کو آرام نہیں ہے
کان ہوا کے پک جاتے ہیں


لمحوں کو آسان نہ لینا
لمحے صدیاں فق جاتے ہیں


ایک طرف سے تم آتے ہو
چاروں اور دھڑک جاتے ہیں


ایک معطر یاد کے جھونکے
تازہ لمس چھڑک جاتے ہیں


قدموں کی عادت ہے یوں ہی
سوئے یار سرک جاتے ہیں


جانے دو لوگوں کی باتیں
کچھ بھی آ کر بک جاتے ہیں


رستہ گر بھی شرط نہیں ہے
رستے آپ بھٹک جاتے ہیں


آنکھیں چوکھٹ ہو جاتی ہیں
موسم بے دستک جاتے ہیں