اس سامنے بیٹھی لڑکی سے
اس سامنے بیٹھی لڑکی سے
دل چاہتا ہے اک بات کروں
وہ بات کہ جس کی کرنوں سے
ہر سمت اجالا ہو جائے
یہ حبس جو ہر سو پھیلا ہے
خوشبو کا حوالہ ہو جائے
اس چندن مورت لڑکی کی
مہکار ہے سارے کمرے میں
خاموش ہے وہ پھر بھی اس کی
چہکار ہے سارے کمرے میں
دل ہی دل میں دل کی باتیں
روزانہ کہتا ہوں اس کو
گم صم گم صم حیراں حیراں
بس دیکھتا رہتا ہوں اس کو
کچھ دھیمے دھیمے سے فقرے
ہونٹوں سے گریزاں رہتے ہیں
کچھ دھندلے دھندلے سے سپنے
آنکھوں میں پریشاں رہتے ہیں
کچھ بھولے بھالے سے ارماں
بے چین ہیں میرے سینے میں
جس دن سے ایسی حالت ہے
اک لذت سی ہے جینے میں
اس کے رنگین خیالوں میں
ہر خواب کو چہرہ مل جائے
ہر لمحہ اوس کی صورت ہو
ہر پھول خوشی سے کھل جائے
نہ جانے کیوں پھر بھی جیسے
اک پیاس ہے میری آنکھوں میں
ہر خواب ادھورا رہنے کا
احساس ہے میری آنکھوں میں
جو خواب ہے پلکوں پر رقصاں
تعبیر کیا جائے کیسے
جو ذہن میں ایک تصور ہے
تصویر کیا جائے کیسے
اب کیوں نہ اس تنہائی کو
گلزار محبت ہی سمجھوں
ان ہونٹوں کی خاموشی کو
اقرار محبت ہی سمجھوں
ان آنکھوں سے جگنو لے کر
روشن اپنے دن رات کروں
اس سامنے بیٹھی لڑکی سے
دل چاہتا ہے اک بات کروں