تمہارے لئے میری آخری نظم
یہ شہر چاہے ہزار صدیوں کی جدتوں کا لباس پہنے
یہاں کے باسی بھلے کوئی بھی زبان بولیں
وفا کے معنی وفا رہیں گے
دلوں کے موسم میں پت جھڑوں کا سوال کیسا
خزاں سے مہلت نہ پانے والے
ہوا کی باتوں میں آنے والے
لرزتے گرتے بکھرتے پتے
جنوں کی شاخوں پہ عشق بن کر اگا کریں گے
بچھڑتے رستو
کسی کے نقش قدم پہ لکھی
محبتوں کا خیال کرنا
کبھی اندھیرے میں دھوپ نکلے تو
چاندنی سے سوال کرنا
وہ آدمی جو ہوا سے خوشبو نتھار لیتا تھا
اب کہاں ہے
دھویں کو واپس جو شعلگی میں اتار لیتا تھا
اب کہاں ہے
وہ اپنی وحشت کے بل پہ زندہ
وفا کے موسم کا اک پرندہ
جو دل کے پنجرے میں بے گناہی بھگت رہا ہے
سکوں نہ آئے تو اس سے ملنا
کبھی محبت میں غرق ہو کر
وہ اپنی نظروں سے دیکھتا ہے
دلوں کو دنیا سے فرق ہو کر