مولانا رومی کا مختصر تعارف

 آپ افغانستان کے شہر بلخ میں 30 ستمبر 1207ءمیں پیدا ہوئے ۔ محمد نام تھا۔ شیخ بہاوالدین آپ کے والدِ گرامی ایک بلند پایہ صوفی اور عالم تھے۔ جلال الدین آپ کا لقب تھا۔ زندگی کے آخری چند سال ترکی کے مشہور شہر قونیہ میں گزارے۔ آپ کی ساری زندگی سفر میں گزری۔ بلخ سے لارندہ ،  پھر دمشق اور حلب ،اس کے بعد بغداد اور پھر اپنے وطن حجاز میں جا پہنچے ۔ یہ آپ کا اصلی وطن تھا کیوں کہ آپ نسلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔آخر کار قونیہ میں قیام پذیر ہوئے۔ وصال مبارک 17 دسمبر 1273ءمیں ہوا۔قونیہ میں آپ کا مزار شریف آج بھی مقناطیس کی طرح ساری دنیا کے صاحبانِ فکر و نظر کے قلوب کو کھینچ رہاہے۔

مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کلام دونوں ہوئی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ چھبیس ہزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشہور زمانہ  مثنوی تصوف اور عشق الٰہی کے جملہ موضوعات کو انتہائی سادگی روحانی اور عام فہم انداز میں بیان کرتی ہے۔

 عشق الٰہی اور معرفت کے انتہائی مشکل و پیچیدہ نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کہانیوں سے مدد لی ہے۔ جو بھی لکھا  ہے  قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی ہے ۔اس لیے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اہمیت و افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

مولانا جلال الدین رومی الملقب بہ مولوی معنوی سن بارہ سو سات میں بلخ میں پیدا ہوئیے۔ آپ کے والد بزرگوار بہاؤالدین اپنے دور کے مشہور علماء  میں شمار کیے جاتے تھے، حتی کے ان حلقہء درس میں حاکم وقت خوارزم شاہ بھی شرکت کیا کرتے تھا۔

وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کہا اور پناہ کی تلاش میں  انا طولیہ کی راہ لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جہاں مشہور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔

عطا بڑے قیافہ شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ  آگے چل کر یہ بچہ عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چہ  انہوں نے بہاؤ الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے  بہاؤالدین اناطولیہ پہنچے ۔جہاں کے سلجوتی حاکم علاؤالدین کیقباد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیہ میں بہاؤالدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بہت جلد مشہور گئے، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقہء درس میں شریک ہونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتہا عقیدت رکھتے تھے۔

مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزرہوتی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وہ حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رہے تھے، ایک خوانچہ فروش حلوہ بیچتا  مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواہ اور بے خبر اس جگہ جا کر کھڑاہو گیا ، جہاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچہ فروش نے تعجب سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے، تُو کیا کر  رہا ہے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کہا کہ، "  یہ  وہ چیز ہے جسے تم نہیں جانتے۔" وہ آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے ہاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کہا یہ تم نے کیا کیا؟ 

خوانچہ فروش بولا ، " میں نے تو کچھ بھی  نہیں کیا۔" یہ کہہ کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی کو تھما دی۔  کتاب بالکل خشک تھی ، جیسے پانی کبھی اس کے قریب سے بھی نہ گزرا ہو۔  رومی نے حیرت سے پوچھا، یہ کیا ہے؟

 اس خوانچہ  فروش نے جواب دیا،  "یہ وہ چیز ہے جو تم نہیں جانتے ۔"یہ کہہ کر اس نے اپنا خوانچہ اٹھایا اور اسی طرح صدا  لگاتا  باہر چلا گیا۔ یہ حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انہوں نے علم کی انتہائی اعلیٰ منازل طے کررکھی تھیں، اب عشق الہٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس میں قدم قدم پر انہیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راہ نمائی حاصل تھی۔ پھر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب گئے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں شہید کردیا گیا۔

شمس تبریز کی جدائی مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں   وارفتگی  کے عالم میں انہوں نے فی البدیہہ شعر کہنا شروع کردیے۔ یوں عرفان و آگہی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ہوئی۔

اس مثنوی کے علاوہ مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیہ، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں ہوئیں جو ان کے نام کو صوفیانہ ادب میں ہمیشہ روشن اور تابندہ رکھیں گی۔

ہر سال سترہ دسمبر کو مولانا کا عرس [شب عروس] کے نام سے قونیہ میں منعقد کیا جاتا ہے۔

مولانا رومی کے کچھ متفرق اشعار

وجودِ آدمی از عشق می رَسَد بہ کمال

گر ایں کمال نَداری، کمال نقصان است

آدمی کا وجود عشق سے ہی کمال تک پہنچتا ہے، اور اگر تو یہ کمال نہیں رکھتا تو کمال (حد سے زیادہ) نقصان ہے۔

مردہ بُدم زندہ شُدم، گریہ بدم خندہ شدم

دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم

میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا، دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا۔

حاصلِ عُمرَم سہ سُخَن بیش نیست

خام بُدَم، پختہ شُدَم، سوختَم

میری عمر کا حاصل ان تین باتوں سے زائد کچھ بھی نہیں ہے، خام تھا، پختہ ہوا اور جل گیا۔

ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر

ہر کہ اُو آگاہ تر، رُخ زرد تر

ہر وہ کہ جو زیادہ بیدار ہے اس کا درد زیادہ ہے، ہر وہ کہ جو زیادہ آگاہ ہے اس کا چہرہ زیادہ زرد ہے۔

خرد نداند و حیراں شَوَد ز مذہبِ عشق

اگرچہ واقفِ باشد ز جملہ مذہب ھا

خرد، مذہبِ عشق کے بارے میں کچھ نہیں جانتی سو (مذہب عشق کے معاملات سے) حیران ہو جاتی ہے۔ اگرچہ خرد  باقی  سب مذاہب کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم

خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

گہے خندم گہے گریَم، گہے اُفتم گہے خیزم

مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اس کے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اس کا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را

غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر

کز  دیو   و  دد ملولم و انسانم آرزوست

کل (ایک) شیخ چراغ لیے سارے شہر کے گرد گھوما کیا (اور کہتا رہا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کا آزرو مند ہوں۔

شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما

اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما

اے دوائے نخوت و ناموسِ ما

اے تو افلاطون و جالینوسِ ما

(مثنوی)

خوش رہ اے ہمارے اچھے جنون والے عشق، (تُو جو کہ) ہماری تمام علّتوں کا طبیب ہے۔

(تو جو کہ) ہماری نفرت اور ناموس (حاصل کرنے کی ہوس) کی دوا ہے، تو جو ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے۔

یک زمانہ صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے ۔سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے۔

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح ترا طالح کند

نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے ۔بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے۔

اولیا را ہست قدرت از الہ

تیر جستہ باز آرندش راہ

اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت حاصل ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی تقدیر بدل دیتے ہیں۔

گفت پیغمبرؐ با آواز بلند

بر توکل زانوئے اُشتر بہ بند

نبی پاک ﷺ نے با آواز بلند تعلیم دی کہ اللہ پر توکل رکھو اور  ساتھ ہی اُونٹ کے گھٹنے بھی باندھو۔

رمز الکاسب حبیبُ اللہ شنو

از توکل در سبب کاہل مشو

اشارہ سمجھو کہ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے ۔توکل کے بھروسے کاہل نہ بن جاؤ۔

کاملے گر خاک گیرد زر شود

ناقص ار زَر بُرد خاکستر شود

کامل انسان خاک پکڑےتو سونا بن جائے ۔ ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے

قافیہ اندیشم و دلدارِ من

گویدم مندیش جز دیدارِ من

میں قافیہ کی فکر کرتا ہوں اور میرا محبوب مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیدار کے سوا کچھ نہ سوچ۔

چوں تو شیریں نیستی فرہاد باش

چوں نہ لیلیٰ تو مجنوں گرد فاش

جب تو شیریں نہیں ہے فرہاد بن جا ۔جب تو لیلیٰ نہیں ہے توکھلا مجنوں بن جا ۔یعنی معشوق نہیں ہے توپھر عاشق بن۔

در بہاراں کے شود سَر سبز سنگ

خاک شو تا گل بَروید رنگ رنگ

موسم بہار میں پتھر سر سبز و شاداب کب ہوتا ہے۔ خاک (مٹی) بن جا ،تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں۔

ہمنشینی مُقبلاں چوں کیمیاست

چوں نظر شاں کیمیائے خود کجاست؟

بارگاہ حق کے مقبول بندوں کے ہم نشینی سونا ہے ۔بلکہ ان لوگوں کے نظر کے مقابلے میں سونا خود کچھ نہیں۔

کار پاکاں را قیاس از خود مگیر

گرچہ باشد در نوشتن شیر شیرِ

نیک لوگوں کے کام کو اپنے پر قیاس نہ کر ۔ اگرچہ لکھنے میں شیر(درندہ) اور شیرِ( دودھ) یکساں ہے۔