رہ گزر باشوں کو سائے کی بھی کیا حاجت نہیں (ردیف .. م)

رہ گزر باشوں کو سائے کی بھی کیا حاجت نہیں
پوچھتے ہیں عالم نو تیرے معماروں سے ہم


کیا خبر تھی آ کے منزل پر وہ ہوگا چاک چاک
جو بچا لائے تھے دامن راہ کے خاروں سے ہم


جیسے سایہ بھی گناہوں کا نہیں ہم پر پڑا
کس قدر دامن کشیدہ ہیں گنہ گاروں سے ہم


دم نہ لیں گے جب تلک یہ سامنے سے ہٹ نہ جائیں
ٹکریں لیتے رہیں گے اونچی دیواروں سے ہم


آپ غم خواری کی زحمت مت گوارا کیجئے
التجا کرتے ہیں اب یہ اپنے غم خواروں سے ہم


اپنی ناداری سے خود اپنی نظر میں ہیں سبک
اس قدر مرعوب ہیں دولت کے انباروں سے ہم


ہو رہے ہیں حوصلے پورے مشیت کے رضاؔ
لے رہے ہیں باج مہر و ماہ سے تاروں سے ہم