رفتہ رفتہ آسماں اترا زمیں کے اس طرف
رفتہ رفتہ آسماں اترا زمیں کے اس طرف
میں نے بویا تھا کبھی سبزہ زمیں کے اس طرف
اس زمیں پر پیاس کی شدت ہوئی تھی کب عیاں
کس نے سوچا تھا نہاں دریا زمیں کے اس طرف
آسماں کے رنگ سارے حیرتوں کے عکس ہیں
وہ ہے اک چہرہ پس پردہ زمیں کے اس طرف
میرے ہونے کا گماں اس بھیڑ میں ہے مبتلا
اور میں تنہا بہت تنہا زمیں کے اس طرف
ایک تارہ ٹوٹنے کی چاہ میں بے چین ہے
منتظر ہوگا کوئی بچہ زمیں کے اس طرف