رات دن اس طرح گزرتے ہیں

رات دن اس طرح گزرتے ہیں
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں


لوگ حیراں ہوں اس زمانے میں
کیسے ہنس ہنس کے زیست کرتے ہیں


کوئی جا کر خزاں سے کہہ آئے
پھول گلشن میں پھر نکھرتے ہیں


آپ کو دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
آسماں سے بھی لوگ اترتے ہیں


غم کے ہاتھوں بگڑ گئے ہم تو
وہ بھی ہوں گے کہ جو سنورتے ہیں


رشک سے نام تک نہیں لیتے
دم مگر آپ ہی کا بھرتے ہیں