قومی زبان

بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں

بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں سواد شب میں ستارے مجھے قبول نہیں یہ کوہ و دشت بھی آئینۂ بہار بنے فقط چمن کے نظارے مجھے قبول نہیں تمہارے ذوق کرم پر بہت ہوں شرمندہ مراد یہ ہے سہارے مجھے قبول نہیں مثال موج سمندر کی سمت لوٹ چلو سکوں بہ دوش کنارے مجھے قبول نہیں میں اپنے خوں سے ...

مزید پڑھیے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا انہیں تو دن کا بھی سایا دکھائی دیتا ہے یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ...

مزید پڑھیے

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے فوارے کی طرح نہ اگل دے ہر ایک بات کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں ...

مزید پڑھیے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ ...

مزید پڑھیے

پا برہنہ ہیں اب کے جنگل میں

پا برہنہ ہیں اب کے جنگل میں تو بھی میں بھی طلب کے جنگل میں خاک خواہش بھی اب نہیں اڑتی خون کی تاب و تب کے جنگل میں ہاں ابھی آرزو نہیں نکلی اور کچھ روز اب کے جنگل میں کفر و اسلام مل رہے ہیں گلے اور کیا ہے ادب کے جنگل میں وہ بھی میری طرح سے رہ لے گا عمر بھر روز و شب کے جنگل میں کون ...

مزید پڑھیے

تیرے سوا

سوچتا ہوں کہ ترے پیار کے بدلے مجھ کو کیا ملا درد و غم و رنج و مصیبت کے سوا اک تڑپ ایک کسک ایک خلش ہے پیہم ایک لمحہ بھی سکوں کا نہ مرے پاس رہا اور تو اجنبی آغوش کی زینت بن کر اک چمکتی ہوئی فردوس میں جا بیٹھی ہے رقص کرتے ہیں نئے خواب نگاہوں میں تری دل سے ماضی کے سبھی نقش مٹا بیٹھی ...

مزید پڑھیے

اعتراف

جل بجھے آنکھوں میں خوابوں کے مہکتے پیکر اب کہیں کوئی شرارہ ہے نہ شعلہ نہ دھواں کھو گئے وقت کی پتھریلی گزر گاہوں پر چند بے نام تمناؤں کے قدموں کے نشاں ایک پرچھائیں ہوں جس میں نہ کوئی رنگ نہ روپ صرف احساس ہو تم جس کا کوئی نام نہیں میں بھی پابستہ ہوں حالات کی زنجیروں میں تم پہ بھی ...

مزید پڑھیے

آس

شب کے آوارہ گرد شہزادے جا چھپے اپنی خواب گاہوں میں پڑ گئے ہیں گلابی ڈورے سے رات کی شبنمی نگاہوں میں سیم تن اپسراؤں کے جھرمٹ محو پرواز ہیں فضاؤں میں رات رانی کی دل نشیں خوشبو گھل گئی منچلی ہواؤں میں جھیل کی بے قرار جل پریاں آ کے ساحل کو چوم جاتی ہیں دم بہ دم میری ڈوبتی نظریں تیری ...

مزید پڑھیے

بازار

اس قدر شوخ نگاہوں سے نہ دیکھو مجھ کو غیرت حسن پہ الزام نہ آ جائے کہیں تم نے خود بھی نہیں سمجھا ہے ابھی تک جس کو لب پہ وہ خواہش بے نام نہ آ جائے کہیں یہ جو معصوم تمنا ہے تمہارے دل میں کتنی سنگین خطا ہے یہ تمہیں کیا معلوم اور دنیا میں محبت کے خطا کاروں پر کس قدر ظلم ہوا ہے یہ تمہیں ...

مزید پڑھیے

مدت سے کسی ٹھہری ہوئی آب و ہوا میں

مدت سے کسی ٹھہری ہوئی آب و ہوا میں زندہ ہوں یہاں زہر بھری آب و ہوا میں اچھا نہیں لگتا ہے مگر اے شب ہجراں تحلیل تو ہونا ہے اسی آب و ہوا میں اس کو بھی نہ لگ جائے کسی ہجر کی دیمک اک وصل جو روشن ہے تری آب و ہوا میں جس حال میں ہوں یہ بھی میسر نہیں سب کو مانا کہ وہ لذت نہ رہی آب و ہوا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 941 سے 6203