پا برہنہ ہیں اب کے جنگل میں

پا برہنہ ہیں اب کے جنگل میں
تو بھی میں بھی طلب کے جنگل میں


خاک خواہش بھی اب نہیں اڑتی
خون کی تاب و تب کے جنگل میں


ہاں ابھی آرزو نہیں نکلی
اور کچھ روز اب کے جنگل میں


کفر و اسلام مل رہے ہیں گلے
اور کیا ہے ادب کے جنگل میں


وہ بھی میری طرح سے رہ لے گا
عمر بھر روز و شب کے جنگل میں


کون آئے گا ملنے کو اخترؔ
ایسی ویران شب کے جنگل میں