مدت سے کسی ٹھہری ہوئی آب و ہوا میں

مدت سے کسی ٹھہری ہوئی آب و ہوا میں
زندہ ہوں یہاں زہر بھری آب و ہوا میں


اچھا نہیں لگتا ہے مگر اے شب ہجراں
تحلیل تو ہونا ہے اسی آب و ہوا میں


اس کو بھی نہ لگ جائے کسی ہجر کی دیمک
اک وصل جو روشن ہے تری آب و ہوا میں


جس حال میں ہوں یہ بھی میسر نہیں سب کو
مانا کہ وہ لذت نہ رہی آب و ہوا میں


شاداب نہیں ہوں گے کبھی خواب ہمارے
ہر چند کہ روشن ہیں کھلی آب و ہوا میں


میں اپنی طرف بڑھنے لگا آپ ہی اخترؔ
کیا جوش عقیدت تھا نئی آب و ہوا میں