خلش زخم تمنا کا مداوا بھی نہ تھا
خلش زخم تمنا کا مداوا بھی نہ تھا میں نے وہ چاہا جو تقدیر میں لکھا بھی نہ تھا اتنا یاد آئے گا اک روز یہ سوچا بھی نہ تھا ہائے وہ شخص کہ جس سے کوئی رشتہ بھی نہ تھا کیوں اسے دیکھ کے بڑھتی تھی مری تشنہ لبی ابر پارہ بھی نہ تھا وہ کوئی دریا بھی نہ تھا دل وہ صحرا کہ جہاں اڑتی تھی حالات کی ...