قومی زبان

اس لیے کم کسی سے ملتا ہے

اس لیے کم کسی سے ملتا ہے خود سے مل کر مجھی سے ملتا ہے چشم گریہ کو دیکھئے گا کبھی دل کا دریا اسی سے ملتا ہے جس کو دیکھا نہیں کبھی میں نے تیرا چہرہ اسی سے ملتا ہے تیری آنکھیں بتا رہی ہیں مجھے خواب میں تو کسی سے ملتا ہے میں نے دیکھا تھا خواب میں اس کو وہ مری شاعری سے ملتا ہے آئینہ ...

مزید پڑھیے

غزل یہ جو ہماری ہو رہی ہے

غزل یہ جو ہماری ہو رہی ہے تری آنکھوں سے جاری ہو رہی ہے تم اپنے شہر کے بارے میں بولو یہاں تو برف باری ہو رہی ہے میں خود میں ہی بکھرتا جا رہا ہوں کہ مجھ میں سنگ باری ہو رہی ہے ہماری جیبیں کاٹی جا چکی ہیں تلاشی کیوں ہماری ہو رہی ہے فلک کے کان ہی شاید نہیں ہیں زمیں پر آہ و زاری ہو ...

مزید پڑھیے

پرندے آزمائے جا رہے تھے

پرندے آزمائے جا رہے تھے پروں سے گھر بنائے جا رہے تھے کسی صحرا سے آتی تھیں صدائیں کہیں پیڑوں کے سائے جا رہے تھے گھروں سے لوگ ہجرت کر رہے تھے چراغوں کو بجھائے جا رہے تھے پرانے پیڑ کٹتے جا رہے تھے نئے پودے لگائے جا رہے تھے کہیں مابعد ہم نے آنکھ کھولی ہمیں سپنے دکھائے جا رہے ...

مزید پڑھیے

تجربہ جو بھی ہے میرا میں وحی لکھتا ہوں

تجربہ جو بھی ہے میرا میں وحی لکھتا ہوں میں تصور کے بھروسے پہ نہیں بیٹھا ہوں جب میں باہر سے بڑا سخت نظر آؤں گا تم سمجھنا کہ میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوں جس کی خوشبو مجھے مسمار کیا کرتی ہے میں اسی قبر پہ پھولوں کی طرح کھلتا ہوں بارہا جسم نے پھر ذہن نے بیچا ہے مجھے کیا میں قدرت کی ...

مزید پڑھیے

ارملا

یہ راماین جو ہندستان کی رگ رگ میں شامل ہے جسے اک بالمیکی نام کے شاعر نے لکھا تھا بہت ہی خوب صورت ایک ایپک ہے فسانہ در فسانہ بات کوئی منجمد ہے اموشن قید ہیں لاکھوں طرح کے کئی کردار ہیں جو صاحب کردار لگتے ہیں مگر اک بات ہے جو مدتوں سے مجھ کو کھلتی ہے کہ افسانے میں سب کے درد و غم کا ...

مزید پڑھیے

آزادی

زباں تم کاٹ لو یا پھر لگا دو ہونٹھ پر تالے مری آواز پر کوئی بھی پہرہ ہو نہیں سکتا مجھے تم بند کر دو تیرگی میں یا سلاخوں میں پرندہ سوچ کا لیکن یہ ٹھہرا ہو نہیں سکتا اگر تم پھونک کر سورج بجھا دو گے تو سن لو پھر جلا کر ذہن یہ اپنا اجالا چھانٹ لوں گا میں سیاہی ختم ہوئے گی قلم جب ٹوٹ جائے ...

مزید پڑھیے

عکس ریز

صبح کے تین بجنے والے ہیں نیند ہے دور میری آنکھوں سے کروٹیں یوں بدل رہا ہوں میں آخری رات جیسے روگی کی چاندنی رس رہی ہے کھڑکی سے اوک میں بھر کے پی رہا ہوں میں یاد سی آ رہی ہے بچپن کی آسماں بھر رہا ہے تاروں سے جھینگروں کی صدا ہے کانوں میں جگنوؤں کی کئی قطاریں ہیں اک چٹائی بچھی ہے آنگن ...

مزید پڑھیے

ذہن

یہ دعویٰ ہے جہاں میں چند لوگوں کا کہ ہم نے زندگی کو جیت رکھا ہے ہمارے پاس یعنی ایٹمی ہتھیار ہیں اتنے ہمارا دوست ننھا ایلین بھی ہے کروڑوں سال کی تاریخ کو اب جانتے ہیں ہم کہ ہم نے موت پر اب فتح پا لی ہے پلینٹ مارس پر پانی بھی ڈھونڈا ہے یہ سب کہتے ہوئے اکثر وہ شاید بھول جاتے ہیں ابھی ...

مزید پڑھیے

اس نے خود فون پہ یہ مجھ سے کہا اچھا تھا

اس نے خود فون پہ یہ مجھ سے کہا اچھا تھا داغ بوسہ وہ جو کندھے پہ ملا اچھا تھا پیاس کے حق میں مرے ہونٹ دعا کرتے تھے پیاس کی چاہ میں اب جو بھی ملا اچھا تھا نیند بل کھاتی ہوئی آئی تھی ناگن کی طرح کاٹ بھی لیتی اگر وہ تو بڑا اچھا تھا یوں تو کتنے ہی خدا آئے مرے رستے میں میں نے خود ہی جو ...

مزید پڑھیے

اشک در اشک وحی لوگ رواں ملتے ہیں

اشک در اشک وحی لوگ رواں ملتے ہیں خواب کی ریت پہ جن جن کے نشاں ملتے ہیں میرے دیوان کے ماتھے پہ یہ کس نے لکھا خون میں بھیگے ورق سارے یہاں ملتے ہیں میں نے اک شخص سے اک بار یوں ہی پوچھا تھا آپ کی طرح حسیں لوگ کہاں ملتے ہیں ایک مدت سے اسے لوگ افق کہتے ہیں ایک مدت سے کئی دریا جہاں ملتے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 536 سے 6203