اس لیے کم کسی سے ملتا ہے

اس لیے کم کسی سے ملتا ہے
خود سے مل کر مجھی سے ملتا ہے


چشم گریہ کو دیکھئے گا کبھی
دل کا دریا اسی سے ملتا ہے


جس کو دیکھا نہیں کبھی میں نے
تیرا چہرہ اسی سے ملتا ہے


تیری آنکھیں بتا رہی ہیں مجھے
خواب میں تو کسی سے ملتا ہے


میں نے دیکھا تھا خواب میں اس کو
وہ مری شاعری سے ملتا ہے


آئینہ دیکھتے ہی یاد آیا
میرا چہرہ کسی سے ملتا ہے


کچھ تو خوبی ہے آپ میں تابشؔ
ہر کوئی آپ ہی سے ملتا ہے