یوز کرتے ہیں مسلسل میک اپ کا ڈبہ روز کیوں
یوز کرتے ہیں مسلسل میک اپ کا ڈبہ روز کیوں بن سنور کر ہر گھری بنتے ہیں چھیلا روز کیوں ممی تم تو کہہ رہی تھیں عید تو کب کی گئی پھر پڑوسن سے گلے ملتے ہیں پپا روز کیوں
یوز کرتے ہیں مسلسل میک اپ کا ڈبہ روز کیوں بن سنور کر ہر گھری بنتے ہیں چھیلا روز کیوں ممی تم تو کہہ رہی تھیں عید تو کب کی گئی پھر پڑوسن سے گلے ملتے ہیں پپا روز کیوں
چار گنجے ایک دعوت میں جمع جب ہو گئے ان کی چندیاؤں کے آگے روشنی تھی ماند ماند لوٹ کر جانے لگے تو میزباں نے یوں کہا آپ کے آنے سے محفل میں لگے تھے چار چاند
تم رنگ ہو تم نور ہو تم شیشہ ہو تم جام کرنوں سے بھری صبح ہو تاروں سے بھری شام رنگین ہے سرشار ہے مستانہ ہے دنیا تم ہو تو نگاہوں میں پری خانہ ہے دنیا
بنایا ہے ہم نے یہ لکڑی کا گھوڑا سڑا سڑ سڑا سڑ لگاتے ہیں کوڑا یہ کرتا نہیں بھول کر بھی کبھی ہٹ جدھر چاہا پھیرا جدھر چاہا موڑا یہ کھاتا نہیں ٹھوکریں راستے میں بلا سے اگر ہو کوئی اینٹ روڑا نہ یہ مارتا ہے دولتی کسی کے کسی کا نہیں اس نے منہ ہاتھ توڑا نہ اس نے کبھی مجھ کو اب تک گرایا نہ ...
بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی بلبل کا بچہ گاتا تھا گانے میرے سرہانے بلبل کا بچہ ایک دن اکیلا بیٹھا ہوا تھا بلبل کا بچہ میں نے اڑایا واپس نہ آیا بلبل کا بچہ
علی گڑھ ہے یہاں اے دوست کیا پایا نہیں جاتا یہاں وہ کون سا شو ہے جو دکھلایا نہیں جاتا یہ علم و فن کا گہوارہ ہے تہذیبی ادارہ ہے نظر میں یہ ہماری تو سیاست کا اکھاڑا ہے ہر اک شعبے میں پاؤ گے یہاں تم پارٹی بازی یہاں رہتی ہے آپس میں ہمیشہ ترکی و تازی خدا کے فضل سے اہل ہنر ہیں اہل فن سب ...
سنو سہیلی کہوں پہیلی ہے جو کوئی بوجھے سوچو سمجھو اور پھر پوچھو اگر تمہیں نا سوجھے سوچ سمجھ کر کہنا سننا اپنا ایک اصول پھولوں میں ہے سب سے پیارا بھلا کون سا پھول سوسن ٹیسو کمل موتیا رات کی رانی چمپا نہ نہ سورج مکھی چنبیلی دن کا راجہ گیندا ان کا کیا ہے مرجھائیں تو خاک بنیں یا ...
وفا کے پیمان سب بھلا کر جفائیں کرتے وفا کے قاتل رسول حق کے جو امتی ہیں وہی ہیں آل عبا کے قاتل یہ اس کی اپنی ہی مصلحت ہے وہ جسم رکھتا نہیں ہے ورنہ یہ منصبوں کے غصب کے عادی ضرور ہوتے خدا کے قاتل نہ ہی امانت نہ ہی دیانت نہ ہی صداقت نہ ہی شرافت نبی کے منبر پر آ گئے ہیں نبی کی ہر اک ادا ...
زمین گونگی ہو رہی ہے پرندے چپ سادھے اجڑی شاخوں پہ بیٹھے نوحہ کناں ہیں رات کے بدن پہ نیند کے پیالے اوندھے پڑے بلک رہے ہیں عورتوں کے رحم میں زندہ لاشوں کے گلنے سڑنے سے تعفن پھیل رہا ہے خواب بستیاں اجڑ رہی ہیں سمندروں نے دیکھا موت دانت نکوستی دندناتی پھرتی ہے بڑھیا کھڑکی سے ...
وہ میرے غصے کا ایک لمحہ جو ٹل نہ پایا تھا دل کے معبد میں اک خداوند اسی کو سولی پہ مار ڈالا کرن امیدوں کی راکھ کر دی مسرتوں کی تمام کلیاں خود اپنے پیروں سے روند ڈالیں مگر یہ قطرے لہو کے قطرے درون سینہ ٹپک رہے ہیں گواہ ہوں گی یہ زرد آنکھیں کہ میرے دل میں عجب جہنم بھڑک رہا ہے جو ہو رہا ...