دیر_آید
جج (ملزم سے) ’’تم نے اس آدمی کے منہ پر گھونسا کیوں مارا؟‘‘ ملزم: ’’جناب اس نے آج سے دو سال پہلے مجھے گینڈا کہا تھا۔‘‘ جج: اگر دو سال پہلے کہا تھا تو اب مارنے کا کیا جواز تھا؟‘‘ ملزم: ’’جناب میں نے آج ہی گینڈا دیکھا ہے۔‘‘
جج (ملزم سے) ’’تم نے اس آدمی کے منہ پر گھونسا کیوں مارا؟‘‘ ملزم: ’’جناب اس نے آج سے دو سال پہلے مجھے گینڈا کہا تھا۔‘‘ جج: اگر دو سال پہلے کہا تھا تو اب مارنے کا کیا جواز تھا؟‘‘ ملزم: ’’جناب میں نے آج ہی گینڈا دیکھا ہے۔‘‘
ایک شہری آدمی اور ایک کسان ایک ساتھ سفر کر رہے تھے۔ شہری آدمی نے کسان سے کہا ’’آؤ ہم ایک دوسرے سے پہیلیاں بوجھواتے ہیں جو پہیلی نہ بوجھے اسے پانچ سو روپئے دینے پڑیں گے‘‘۔ کسان بولا: ’’نہیں جناب! آپ پڑھے لکھے ہیں، آپ پانچ سو روپے، دیجئے گا، میں دو سو روپئے دوں گا‘‘۔ شہری ...
ایک چور کسی کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوا اور مالک مکان کے تکیئے کے نیچے سے چابیاں تلاش کرنے لگا۔ مالک کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ مالک نے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘ چور نے منہ سے بلی کی آواز نکالی ’’میاؤں‘‘۔ مالک نے پھر پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘ چور پھر بولا: ...
ایک سیاح کسی گاؤں میں گیا وہاں ایک دیہاتی سے پوچھا۔ یہاں کسی نے اپنا نام روشن کیا ہے۔ نہیں جناب یہاں تو ابھی تک بجلی نہیں آئی۔
استاد (شاگرد سے) بت پرست کسے کہتے ہیں؟ شاگرد: بتوں کی پوجا کرنے والے کو۔ استاد: شاباش! اچھا یہ بتاؤ سرپرست کسے کہتے ہیں؟ شاگرد: سر کی پوجا کرنے والے کو۔
دو چور کسی مکان میں جا گھسے۔ ان میں سے ایک ذرا عقل مند تھا۔ اندھیرے میں اس کی کسی چیز سے ٹکر ہوگئی۔ مالک مکان جاگ اٹھا اور پوچھا کون۔‘‘ عقل مند چور نے بلی کی آواز بنا کر کہا’’میاؤں‘‘ مالک سمجھا سچ مچ بلی ہوگی۔ اتفاق سے دوسرے صاحب بھی کسی چیز سے ٹکرا گئے۔ مالک مکان پھر زور سے ...
ایک صاحب اپنے ایک دوست سے پوچھنے لگے’’آپ کے بڑے لڑکے کا نام کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا’’نفیس کریم، چھوٹے لڑکے کا نام رئیس کریم۔‘‘ پہلے صاحب نے بیچ میں ٹوک کر کہا ’’تو پھر آپ کی بیٹی کا نام یقیناً آئس کریم ہوگا۔‘‘
حلوا ہمیں جلوے کا کھلا کیوں نہیں دیتے اس دیگ سے ڈھکن کو ہٹا کیوں نہیں دیتے کیا ناپ ہے بیگم کا جو پوچھے کوئی موچی جو پیٹھ پہ نقشہ ہے دکھا کیوں نہیں دیتے
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
کبھی نرمی کبھی سختی کبھی الجھن کبھی ڈر وقت اے دوست بہرحال گزر جاتا ہے لمحہ لمحہ نظر آتا تھا کبھی اک اک سال ایک لمحہ میں کبھی سال گزر جاتا تھا