قومی زبان

وقت کی انگلی پکڑے رہنا اچھا لگتا ہے

وقت کی انگلی پکڑے رہنا اچھا لگتا ہے ہم کو چلتے پھرتے رہنا اچھا لگتا ہے ایک سمندر لاکھوں دریا دل میں اک طوفان شام و سحر یوں ملتے رہنا اچھا لگتا ہے کتنی راتیں سوتے سوتے گزریں خوابوں میں لیکن اب تو جگتے رہنا اچھا لگتا ہے سچ کے دروازے پر دستک دیتا رہتا ہوں آگ کی لپٹیں اوڑھے رہنا ...

مزید پڑھیے

آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا

آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا اب کے روٹھا ہے بہت مجھ کو منانے والا میرے چہرے پہ نئی شام کھلانے والا جانے کس اور گیا بزم سجانے والا نیند ٹوٹے تو اسے دیکھ کے آؤں میں بھی وہ ہے آنکھوں میں نئے خواب سجانے والا رات آنکھوں میں کٹی دن کو رہی بے چینی کیسا ہم درد ہوا درد مٹانے ...

مزید پڑھیے

آؤ دیکھو یہیں ہے دروازہ

آؤ دیکھو یہیں ہے دروازہ تھے جہاں ہم وہیں ہیں دروازہ لوٹتا ہوں نہ گھر کو جب تک میں بند ہوتا نہیں ہے دروازہ آج کل کیوں ہمیں ترے گھر کا یاد آتا نہیں ہے دروازہ دیکھ پاتے ہیں کب کوئی صورت آئنہ تو نہیں ہے دروازہ زندگی کے قریب جانے کا سن رہا ہوں کہیں ہے دروازہ

مزید پڑھیے

میں انساں تھا خدا ہونے سے پہلے

میں انساں تھا خدا ہونے سے پہلے انا الحق کی انا ہونے سے پہلے صلہ تھا عمر بھر کی چاہتوں کا وہ اک لمحہ جدا ہونے سے پہلے نہ جانے کس قدر مصروف ہوگا ترا وعدہ وفا ہونے سے پہلے تو میری چاہتوں میں گم ہوا ہے میں خوشبو تھا ترا ہونے سے پہلے مری گہرائیوں میں راز تیرے میں برسا ہوں گھٹا ہونے ...

مزید پڑھیے

ہر گھڑی ہر وقت ہی بازار میں رہنا پڑا

ہر گھڑی ہر وقت ہی بازار میں رہنا پڑا بیچنا تھا خود کو سو اخبار میں رہنا پڑا ایک ہی تحریر کو پانی پہ لکھا بار بار رہنا تھا بس اس لیے سنسار میں رہنا پڑا خواہشیں تو تھیں کہ ہم بنیاد کا پتھر بنیں ہائے کیسا جرم تھا دیوار میں رہنا پڑا پھر کسی سے دوستی اس نے نہ میرے بعد کی عمر بھر مجھ ...

مزید پڑھیے

کسی بھی رہنمائی کا کوئی دعویٰ نہیں کرتے

کسی بھی رہنمائی کا کوئی دعویٰ نہیں کرتے غزل کے پیرہن کو ہم مگر میلا نہیں کرتے ہماری چاہتوں نے تو بڑے اقرار دیکھے ہیں کسی انکار پر ہم دل کبھی چھوٹا نہیں کرتے سرابوں کی حقیقت سے بہت اچھے سے واقف ہیں کبھی بھی خواب کا ہم دن میں تو پیچھا نہیں کرتے یہاں ہر شے کی قیمت بس محبت ہی محبت ...

مزید پڑھیے

تھکے جسموں تھکی روحوں کے سب معنی بدلتے ہیں

تھکے جسموں تھکی روحوں کے سب معنی بدلتے ہیں وصال ہجر کے موسم میں عریانی بدلتے ہیں گھروں میں بیٹھے بیٹھے زنگ لگ جاتا ہے جسموں کو چلو تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی بدلتے ہیں بدلتی دیکھی ہے دنیا فقط آنکھوں نے ہی اب تک چلو اک کام کرتے ہیں کہ حیرانی بدلتے ہیں بڑی مشکل سے دو مصرعوں میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 465 سے 6203