ہر گھڑی ہر وقت ہی بازار میں رہنا پڑا

ہر گھڑی ہر وقت ہی بازار میں رہنا پڑا
بیچنا تھا خود کو سو اخبار میں رہنا پڑا


ایک ہی تحریر کو پانی پہ لکھا بار بار
رہنا تھا بس اس لیے سنسار میں رہنا پڑا


خواہشیں تو تھیں کہ ہم بنیاد کا پتھر بنیں
ہائے کیسا جرم تھا دیوار میں رہنا پڑا


پھر کسی سے دوستی اس نے نہ میرے بعد کی
عمر بھر مجھ کو بھی پھر اغیار میں رہنا پڑا


وہ جو تھا خوشبو کی مانند اڑنا جس کا شوق تھا
بے بسی دیکھو اسے اشعار میں رہنا پڑا


ہم تصور کر نہ پائے واحدؔ اس تصویر کا
رات بھر ہم کو خیال یار میں رہنا پڑا