قومی زبان

جو تجھ سے منسوب ہوا ہے

جو تجھ سے منسوب ہوا ہے وہ سب کا محبوب ہوا ہے شہر میں اس پر پتھر برسے پھر بھی کب مرعوب ہوا ہے آج سنا ہے میخانے میں ہنگامہ تو خوب ہوا ہے فرحت افزا جو ہوتا تھا موسم وہ مرطوب ہوا ہے کیسے پوچھوں اس سے آخر کیوں مجھ سے محجوب ہوا ہے کاغذ پر جو لکھتا رہا ہوں فکر بھرا مکتوب ہوا ہے فرد ...

مزید پڑھیے

شہر کی لکھ گیا اک دھواں داستاں

شہر کی لکھ گیا اک دھواں داستاں بام و در ہو گئے خونچکاں داستاں سننے والوں کو ہو جب گراں داستاں چھوڑ دو پھر وہیں ہو جہاں داستاں ایک ہی سب کی روداد ہے شہر میں ہر مکیں داستاں ہر مکاں داستاں یہ تو ماضی کے اوراق بتلائیں گے اس نے فردا کی لکھی کہاں داستاں میرا اور اس کا ہر راز افشا ...

مزید پڑھیے

شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا

شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا دل کو محو روئے جاناں کر دیا تو نے اے جمعیت دل کی ہوس اور بھی مجھ کو پریشاں کر دیا واہ رے زخم محبت کی خلش جس کو دل نے راحت جاں کر دیا خود نمائی خود فروشی ہو گئی آپ نے اپنے کو ارزاں کر دیا ان کے دامن تک نہ پہنچا دست شوق اس کو مصروف گریباں کر دیا بزم میں ...

مزید پڑھیے

میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا

میں نے مانا کام ہے نالہ دل ناشاد کا ہے تغافل شیوہ آخر کس ستم ایجاد کا ہائے وہ دل جو ہدف تھا ناوک بیداد کا درد سہتا ہے وہی اب غفلت صیاد کا نرگس مستانہ میں کیفیت جام شراب قامت رعنا پہ عالم مصرعۂ استاد کا مانع فریاد ہے کچھ طبع کی افسردگی کچھ سکوت آموز ہے پاس ادب صیاد کا اس قدر دل ...

مزید پڑھیے

لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے

لبریز حقیقت گو افسانۂ موسیٰ ہے اے حسن حجاب آرا کس نے تجھے دیکھا ہے محفل سی سجائی ہے دیدار کی حسرت نے ہر چند ترا جلوہ محبوب تماشا ہے مٹتا ہے کبھی دل سے نقش اس کی محبت کا ناکام تمنا بھی مجبور تمنا ہے جذبات کی دنیا میں برپا ہے قیامت سی اس حال میں رو پوشی کیا آپ کو زیبا ہے ساقی تری ...

مزید پڑھیے

آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو

آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو پھاڑیں گے جیب گوشۂ زنداں ہی کیوں نہ ہو ہو شغل کوئی جی کے بہلنے کے واسطے راحت فزا ہے نالہ و فغاں ہی کیوں نہ ہو سودائے زلف یار سے باز آئیں گے نہ ہم مجموعۂ حواس پریشاں ہی کیوں نہ ہو احسان تیر یار ادا ہو سکے گا کیا جان اپنی نذر لذت پیکاں ہی کیوں ...

مزید پڑھیے

آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے

آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے درد کا کچھ تو ہو احساس دل انساں میں سخت ناشاد ہے دائم جو یہاں شاد رہے اے ترے دام محبت کے دل و جاں صدقے شکر ہے قید علائق سے ہم آزاد ...

مزید پڑھیے

نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے

نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے خود ہی اثر نالہ سے دل تھام لیا ہے آزادئ اندوہ فزا سے ہے رہائی اب میں نے کچھ آرام تہ دام لیا ہے اٹھتی تھیں امنگیں انہیں بڑھنے نہ دیا پھر میں نے دل ناکام سے اک کام لیا ہے جز مشغلۂ نالہ و فریاد نہ تھا کچھ جو کام کہ دل سے سحر و شام لیا ہے خود پوچھ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 437 سے 6203