قطرۂ شبنم کو جلتے آفتابوں میں نہ رکھ

قطرۂ شبنم کو جلتے آفتابوں میں نہ رکھ
ایک ہی جاں ہے اسے اتنے عذابوں میں نہ رکھ


آئنوں سے دوستی کی ہے تو اپنا عکس دیکھ
اپنے چہرے کو چھپا کر یوں نقابوں میں نہ رکھ


میری آنکھوں کو بھی کوئی خوب صورت خواب دے
مجھ کو ہر لمحہ بسا کر اپنے خوابوں میں نہ رکھ


ایسی باتوں سے ہی وہ رہتا ہے کچھ سہما ہوا
اس کے آگے اپنے ہونٹوں کو گلابوں میں نہ رکھ


پانیوں کے شہر میں ہر موج اک سیلاب ہے
دیکھ اپنی خواہشوں کو ان حبابوں میں نہ رکھ


صرف لمحاتی نشوں میں درد کی لذت نہ ڈھونڈ
اس طرح مدہوش اپنے کو شرابوں میں نہ رکھ