کوئی صدا بھی ہم آہنگ نہیں ہوتی اب سازوں سے
کوئی صدا بھی ہم آہنگ نہیں ہوتی اب سازوں سے
ورنہ دیپک جل اٹھتے ہیں درد بھری آوازوں سے
دھرتی پر سایہ ہے میرا اور نہ میں آکاش پہ ہوں
میں نے بس اتنا ہی پایا ہے اونچی پروازوں سے
اک نا بینا شخص کو اس کے سائے سے کیا حاصل ہے
پھر مجھ تیرہ بخت کو کیا ملتا اپنے ہم رازوں سے
روحیں پھر جسموں کا بوجھ اٹھائے سفر پر نکلیں گی
دھوپ گھروں میں آ پہنچی ہے دیواروں دروازوں سے