دل کے زخموں کی نمائش کے لئے آتا ہے

دل کے زخموں کی نمائش کے لئے آتا ہے
جب کوئی حرف نگارش کے لیے آتا ہے


دھوپ کی سمت نکلتا ہوں سفر پہ جب بھی
ایک سایہ مری پرسش کے لیے آتا ہے


دوسرے لمحے نہیں رہتی وہ پہلی صورت
جیسے ہر پل کسی سازش کے لئے آتا ہے


جاں چھڑاتے ہوئے چلنا ہے ہر اک رستے سے
کوئی ہر گام پہ یورش کے لیے آتا ہے


رہ نہ پائے کسی گوشہ میں اندھیرا انجمؔ
ہر نیا دن اسی کوشش کے لیے آتا ہے