پیار کا یوں دستور نبھانا پڑتا ہے
پیار کا یوں دستور نبھانا پڑتا ہے
قاتل کو سینے سے لگانا پڑتا ہے
دنیا کو پر نور بنانے کی خاطر
اپنے گھر کو آگ لگانا پڑتا ہے
بت خانے یوں ہی تعمیر نہیں ہوتے
پتھر کو بھگوان بنانا پڑتا ہے
دنیا داری کی خاطر اس دنیا کا
جانے کیا کیا ناز اٹھانا پڑتا ہے
اپنے قاتل کی معصوم نگاہوں سے
دل کا ہر اک زخم چھپانا پڑتا ہے
ایسا بھی وقت آتا ہے سرداری پر
انگاروں کو پھول بنانا پڑتا ہے
ایسا بھی ہوتا ہے ہجر کی راتوں میں
دیواروں کو حال سنانا پڑتا ہے
جن گلیوں میں قتل ہوئے ارمان ولیؔ
ان گلیوں میں آنا جانا پڑتا ہے