پرانی دیوار

پرانی بہت پرانی کائی لگی دیوار
لکھوری اینٹوں کی
اتہاس نے اپنے لمبے لمبے ہاتھوں سے جوڑوں کو جس کے باندھا ہے
اور گلابی بھورے سبز ملے جلے دھبوں سے جس پر لاکھ کہانی
لکھ ڈالی ہے
البیلی کرنیں روز صبح چپکے سے اس پر چڑھ جاتی ہیں
ادھر ادھر پھر جھانکتی ہیں
اور ایک ایک کرکے دبے پاؤں
کونوں میں اس کے لک جاتی ہیں
دوڑ دوڑ کر آنکھ‌ مچولی کھیلتی ہیں
لجا سے چور لتا نہوڑائے سر مسکاتی ہے
ہلکے سے اس کے دامن سے دو چار پھول ٹپک جاتے ہیں
سحر اٹھتا ہے سبزہ
آسمان نے آج اسے پھر
رنگ لطافت خوشبو کا یہ کومل تحفہ
بھینٹ کیا ہے
من اس کا یہ دولت
پا کر بھی بھر آتا ہے
یہ آنند اننت نہیں ہے
مگر یہی اسپرش
ہزاروں تاروں میں جیون دنیا کے
رس بھرتا ہے
اور پھر اس سے ایسے راگ نکلتے ہیں
جو کبھی نہیں مرتے
اس دیوار کے سائے میں
اس اپون میں
سرد کھڑے ہیں بالکل سیدھے
ساکت چپ
اشوک بڑی گمبھیر سوچ میں گم
پرانے مندر جیسے
کنول کی کلیاں
ہری ہری ساری پھیلائے
تیر رہی ہیں
اور فوارہ ہلکے ہلکے یوں چلتا ہے
جیسے صبح کو بالک
سوئی ماں کے ڈر سے
سسک سسک کر بلکے