پر سوز جگر کے نالے بھی دل سوز نکلتے رہتے ہیں

پر سوز جگر کے نالے بھی دل سوز نکلتے رہتے ہیں
ہاں شمع بھی جلتی رہتی ہے پروانے بھی جلتے رہتے ہیں


خدام حریم ناز جو ہیں اللہ رے ان کی خوش بختی
دیدار بھی ہوتا رہتا ہے ارماں بھی نکلتے رہتے ہیں


غربت میں وطن اور اہل وطن کی یاد جب آ جاتی ہے مجھے
دل ہے کہ تڑپتا رہتا ہے اور اشک بھی ڈھلتے رہتے ہیں


اے شیخ و برہمن دیکھتا ہوں دن رات تمہارے مردوں کو
یہ خاک میں ملتے رہتے ہیں وہ آگ میں جلتے رہتے ہیں


آئینہ حسن صبیح بھی کیا دیکھے کہ وہ وقت نظارہ
دم بھر نہیں جمتے شوق نظر کے پاؤں پھسلتے رہتے ہیں


اے شیخ حرم اعجاز ہے یہ پر کیف نگاہ ساقی کا
باہوش تو گرتے رہتے ہیں بے ہوش سنبھلتے رہتے ہیں


آرام و مصیبت کیا شے ہے ہوتا نہیں کچھ احساس انہیں
منزل کی جو دھن میں ہیں صابرؔ دن رات وہ چلتے رہتے ہیں