پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس: کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے گی؟

گزشتہ روز (2 اگست 2022) کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آٹھ سال بعد پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ یا غیرملکی(فارن) فنڈنگ کیس پر فیصلہ سنا دیا ہے۔یہ کیس عمران خان کے دیرینہ ساتھی اور تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی درخواست پر 2014 میں شروع ہوا۔یہ کیس طرح طرح کے سیاسی و قانونی  التوا کا شکار ہوتے ہوتے اب انجام کو پہنچا ہے۔لیکن ٹھہریے دودھ میں ابھی بھی اوبال باقی ہے۔ فنڈنگ کے معاملے کو انجام تک پہنچنے میں "عشق کے امتحان اور بھی ہیں" یعنی ابھی مزید قانونی موشگافیوں جا سامنا ہوگا۔

ممنوعہ فنڈنگ اور غیر ملکی فنڈنگ (فارن فنڈنگ) میں کیا فرق کے؟ کیا ممنوعہ فنڈنگ پر پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے؟ پاکستان کی کون سی واحد سیاسی جماعت ہے جس پر ممنوعہ فنڈنگ کے الزام میں پابندی لگائی گئی؟ کیا عمران خان اب "صادق و امین" نہیں رہے؟ کیا پی ٹی آئی کی سیاسی موت واقع ہونے والی ہے؟ آئیے ذرا اس معاملے کی پرتیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا آیا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے کے مطابق  پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سولہ مختلف اکاؤنٹس میں بیرونی فنڈنگ لی ہے جو کہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ بنک اکاونٹس کو چھپانا آئین کی شق 17(3) کی خلاف ورزی ہے۔  یہ فنڈنگ متحدہ عرب عمارات، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سے آئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تحریک انصاف کو شو کاز (اظہار وجوہ) نوٹس جاری کیا کہ کیوں نہ ان فنڈز کو ضبط کرلیا جائیں۔
یہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے یا فارن فنڈنگ کا؟
تاہم تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری اور فرخ حبیب نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر پریس کانفرنس میں کہا کہ فیصلے میں پی ٹی آئی کی بیرونی فنڈنگ (فارن فنڈنگ) ثابت ہی نہیں ہوسکی۔بلکہ یہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کو فنڈ  بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی بھیجا کرتے تھے جو کہ اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ جبکہ حکمران اتحاد کے راہنماؤں نے میڈیا پر اس فیصلے کی بنیاد پر عمران خان اور پی ٹی آئی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
بحر کیف ہم اس کیس  پر سے سیاسی گرد ہٹا کر، کوشش کر کے اپنی سمجھ  بوج کے مطابق، قانونی پہلؤوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے اور اس کے نتائیج کی کی تفصیلات دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بیرونی فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے کیا؛ قانون کیا کہتا ہے؟
جب بھی کوئی کیس کھڑا ہوتا ہے تو اس کے نیچے آئین یا دیگر قوانین کے ستون ہوتے ہیں۔عدالت یا الیکشن کمیشن ان ستونون کو مختلف پہلووں سے دیکھتے ہوئے فیصلہ دیتا ہے کہ آیا الزام لگانے والے نے کیس کو درست  ستونوں پر کیس کو کھڑا کیا ہے یا نہیں۔ اب اس کیس میں ستون کا کام دینے والے تین مختلف قوانین ہیں؛ ایک  آئین کا آرٹیکل سترہ، دوسرا سیاسی جماعت آرڈر 2002، تیسرا  آئین کا آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ۔
بات شروع ہوتی ہے آئین کے آرٹیکل سترہ سے جو  کہ ملک میں  کوئی بھی جماعت یا یونین بنانے کے حق کی وضاحت کرتا ہے۔ اس آرٹیکل  کی  تیسری  ذیلی شق یا  تیسرے سب آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ  ہر سیاسی جماعت کی فنڈنگ (چندے یا عطیات) کا قوانین کے مطابق احتساب کیا جائے گا۔ اب اسی شق پر عمل درآمد کے لیے سیاسی جماعت آرڈر 2002 موجود ہے۔ 
اس آرڈر کا آرٹیکل چھے وضاحت کرتا ہے کہ سیاسی جماعت کون سی فیس یا فنڈنگ لے سکتی ہے اور کون سی نہیں۔ اس آرٹیکل کی ذیلی شق  تین میں لکھا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت  کسی بھی بیرونی حکومت ، ملٹی نیشنل، یا مقامی طور پر رجسٹر نجی یا پبلک کمپنی  ٹریڈ یونین، فرم یا ایسوسی ایشن سے براہ راست یا بلاواسطہ فنڈنگ نہیں لے سکتی۔  پارٹی صرف افراد سے زر تعاون یا فنڈنگ وصول کر سکتی ہے۔ اسی آرٹیکل کے سب آرٹیکل یا ذیلی شک چار میں درج ہے کہ  کوئی بھی ایسا زر تعاون یا ڈونیشن جو کہ اس آرڈر کے مطابق ممنوعہ ہے کو ریاست کے حق میں پارٹی سے واپس لے لیا جائے گا یا ضبط کرلیا جائے گا۔ اس آرڈر میں راقم کی اپنی تحقیق اور قانون دان صحافی ریما عمر کی ڈان اخبار میں  شائع رائے کے مطابق فنڈنگ لینے پر سیایسی جماعت پر کوئی دوسری پنیلٹی نہیں سوائے اس کے کہ وہ حاصل کردہ رقم یا  کوئی بھی فنڈنگ کی ضمن میں کوئی چیز واپس کرے۔ہاں ملک میں موجود دیگر قوانین ضرور ایسے ہیں جس کے تحت  کسی جماعت کو مجموعی طور  پر یا اس کے رکن اسمبلی یا عہدے دار کو گھیرا جا سکے۔ اس کی بھی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ لیکن پہلے درج بالا دونوں قوانین کے تناظر میں تحریک انصاف کے کیس کو دیکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس:پس پردہ کردار کون ہے؟
تحریک انصاف کے ایک رہنما ہیں اکبر شیر احمد (اکبر ایس بابر)۔ انہوں نے عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی تھی۔ چودہ نومبر 2014 کو ان کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر  کی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اکبر ایس بابر نے  الزام  لگایا کہ تحریک انصاف سیاسی پارٹی آرڈر 2002 کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس کے رہنما مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہیں۔ لہٰذا  الیکشن کمشن آف پاکستان  تحقیقات کرے۔ اب درخواست کا اصل متن تو ہمارے سامنے نہیں۔ لیکن ڈان اخبار میں رپورٹ  نومبر 2014 کی اکبر ایس بابر کی میڈیا  ٹاک سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف میں موجود کرپٹ رہنماؤں کے خلاف کارروائی  کے خواہشمند تھے، نہ کے  بیرونی فنڈنگ کے الزامات لگا کر کیس کو سیاسی رنگ دینے کے۔ الیکشن کمیشن میں درخواست کے بعد  انہوں نے میڈیا سے کہا کہ 2010 سے 2013  کے درمیان  امریکہ سے تحریک انصاف کے حامیان نے دو لاکھ ڈالر بھیجے تاکہ مختلف اضلاع میں پارٹی دفاتر کھولے جائیں۔ لیکن یہ پیسہ اصل جگہ لگنے  کی بجائے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جیبوں میں چلا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2013 کے عام انتخابات پر اخراجات کے حوالے سے احتساب ہوا لیکن محتسب  کے راستے میں روڑے اٹکائے گئےاور درست احتساب نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اصل میں خود ہی کرپشن کی اجازت دے رہے ہیں۔اکبر صاحب کی نیت تو اس بیان میں واضح ہے۔ وہ تحریک انصاف میں موجود کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی چاہ رہے ہیں۔ ان میں عمران خان صاحب بھی شامل ہیں، جن کے خلاف انہوں نے ای میلز اور دیگر دستاویزی ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا  کہ میں نے انہیں تمام دھما چوکڑی سے آگاہ کیا لیکن بجائے کہ وہ کاروائی کرتے مجھے ہی 2011 میں موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ذریعے پارٹی سے فارغ کروادیا۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس تاخیر کا شکار کیوں ہوا؟
یہ تو سال ہا کیس چلا اور نوعیت ہی بدل گیا۔ جب الیکشن کمشن نے تحریک انصاف سے آئین کے آرٹیکل سترہ کے سب آرٹیکل تین یعنی 17(3) جس کی وضاحت ہم اوپر کر چکے ہیں، کے مطابق فنڈنگ کے ماخذ کی دستاویزی وضاحت مانگی اور جواب میں کئی سال کی ٹال مٹول ملی تو معلوم پڑا اس ضمن بھی دال میں کچھ کالا ہے۔  بعد میں جب  تحریک انصاف نے  بادل ناخواستہ  تھوڑی بہت دستاویزات پیش کیں اور ان پر تحقیقات ہوئیں اور اسٹیٹ بینک سے بھی معلومات طلب کی گئیں تو کیس کا سارا رخ بیرونی فنڈنگ کے غیر قانونی ماخذ کی طرف ہوگیا اور وہ ساری بات کہ کون بیرونی پاکستانیوں کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لاتا رہا پیچھے ہی رہ گیا۔  اس ضمن میں آخری کیل عارف نقوی کے کچے  چٹھے نے پھوٹ کر  ٹھوک دیا۔ گزشتہ ہفتے فنانشل ٹائمز کی عارف نقوی ایک رپورٹ کی بازگشت رہی۔س دوران فخر دورانی نامی صحافی نے بھی تحقیقات کیں اور نیا انکشاف کر ڈالا۔ اس بات کی نشان دہی گو کہ اکبر بابر  بھی کر رہے تھے لیکن فخر دورانی نے نئے رخ سے تحقیقات کرتے ہوئے بتایا کہ بیرونی ملک سے پاکستانیوں سے شوکت خانم کے نام  پر پیسہ لیا گیا،  جنہیں تحریک انصاف نے بطور اپنی پارٹی کے   ڈونرز دستاویزات ظاہر کروایا تھا۔ اصل میں تحریک انصاف نے اپنی جو دستاویزات میں اپنے ڈونر ظاہر کیے  فخڑ دورانی نے ان کو  رابطہ کر کے پوچھا کہ انہوں نے پیسہ کس لیے دیا تھا۔ جہاں سے پتہ چلا کہ بیشتر نے تو پیسہ شوکت خانم کو دیا ہے۔  خیر کیس نے ان رخ کی سمت بھی اپنا منہ نہیں موڑا اور توجہ بیرونی فنڈنگ کے غیر قانونی ماخذین کی طرف ہی رہی۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس:پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا؟
میڈیا رپورٹس کو درست مانا جائے تو کل کے فیصلے میں کہ دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو  بیرونی فنڈنگ ہوئی ہے۔ اگر تو اس پر صرف سیاسی جماعت آرڈر 2002 کا اطلاق ہوگا تو انہیں وہ تمام رقم واپس کرنا ہوگی جو انہوں نے دوسری حکومتوں سے برائے راست یا بلا واسطہ  یا ملٹی نیشنلز یا ملک میں نجی یا پبلک کمپنیوں سے لی ہیں۔ اور  فائنینشل ٹائمز کی حالیہ رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان کو فنڈنگ متحدہ عرب عمارات  کے شاہی خاندان کے رکن نے بذریعہ عارف نقوی  کی ہے۔ عمران خان کو یہ رقم واپس کرنا ہوگی۔  اس کے سوا آرڈر میں کوئی کاروائی نہیں۔ یہ کاروائی تو سیاسی جماعت آڈر 2002 کے  آرٹیکل چھے اور اس کی ذیلی شکوں کے مطابق ہے۔ لیکن ٹھہریے کہانی میں ٹویسٹ باقی ہے۔ اسی آرڈر  کا  آرٹیکل میں ایسی جماعت جو بیرونی امداد پر چل رہی ہو کے متعلق بھی کچھ کہا گیا ہے۔ کہا گیا ہے بیرونی امدادی  جمعاعت اسی جماعت ہے جو برونی حکومت،  بیرونی سیاسی جماعت کی امداد پر چل رہی ہو یا ان سے منسلک ہو یا ان سے فنڈنگ  پیسوں یا  کسی بھی دوسری شکل میں حاصل کرے۔ اس فنڈنگ کا کچھ حصہ اگر وہ کسی بیرونی شہری سے حاصل کرتی ہے تو  بھی بیرونی امدادی پارٹی گردانی جائے گی۔ یہ جماعت  پاکستان میں کام نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر کرے تو اس زمن آرڈر خاموش ہے، کوئی سزا یا جزا کی وضاحت نہیں کرتا۔  لیکن آئین کا آرٹیکل سترہ  ضرور اس موڑ پر کود  پڑتا ہے۔  اس آرٹکل کی ذیلی شک ایک بتاتی ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف پابندی لگا سکتی ہے اگر وہ اسے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف کام کرتے دیکھے تو۔ لیکن اسے معاملہ فوری سپریم کورٹ بھیجنا ہوگا جہاں معاملہ پندرہ دن کے اندر طے پائے گا۔
اب اگر وفاقی حکومت جو کہ تحریک انصاف کے خلاف ہے تحریک انصاف کو شواہد اور موجودہ فیصلے کے تناظر میں بیرونی امدادی پارٹی قرار دیتی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ میں بھیجتی ہے تو سمجھیں کہ اگلے دو ہفتے تک اس زمن مزید ڈرامہ لگے گا۔ پھر فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اب ایک اور پہلو بھی سامنے آ رہا ہے۔ وہ یہ کہ عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل باسٹھ کے تحت کاروائی کی جا سکتی ہے۔ جو کہ رکن پارلیمان کو صادق اور امین رہنے کا پابند کرتا ہے۔ اب چونکہ عمران خان نے الیکشن کمشن آف پاکستان میں بیان حلفی جمع کروائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے بیرونی امداد پارٹی  یا اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے نہیں لی  لیکن فیصلے میں تو سامنے آ گیا کہ انہوں نے ایسا کیا ہے۔ پھر فائنینشل ٹائمز کی بھی رپورٹ سامنے آئی ہے جسے اب تک عمران خان نے برطانیہ میں چیلنج نہیں کیا۔ اب اس تناظر میں تو عمران خان نا اہل ہوتے ہیں، اگر باسٹ تریسٹھ کی کاروائی چلتی ہے تو۔ پھر وہ نواز شریف کی طرح پیچھے بیٹھ کر ڈوریں ہلائیں گے۔


کیا پاکستان میں ممنوعہ فنڈنگ پر کسی سیاسی جماعت پر پابندی بھی لگی ہے؟
پاکستان میں پی ٹی آئی سے پہلے بھی کئی سیاسی جماعتوں پر بیرون ممالک سے فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ لینے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔لیکن پاکستان کی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر پابندی لگائی تھی۔یہ جماعت "نیشنل عوامی پارٹی" تھی۔
نیشنل عوامی پارٹی ڈھاکہ میں 1957 میں قائم کی گئی۔ یہ ترقی پسند سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی۔اس جماعت نے بنگلہ دیش بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ذوالفقار بھٹو کے دور میں اس جماعت پر بھارت سے فنڈ لینے اور غداری کے الزامات ثابت ہونے پر پابندی عائد کردی۔مشرقی پاکستان میں اس جماعت کی قیادت خان عبدالولی خان (باچا خان) کے پاس تھی۔پاکستان میں اب یہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔
نیشنل عوامی پارٹی کے بعد کسی سیاسی جماعت پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
حاصل کلام:
مجھے امید ہے کہ میں تمام معاملے کو سیاسی گرد ہٹا کر  اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بتانے میں کامیاب رہا ہوں گا۔ اس سے زیادہ کہ میں غور کروں کہ آیا عمران خان سیاسی دوڑ سے باہر ہوں گے یا نہیں مجے غور کرنا ہے کہ جن کرپٹ عناصر کی نشان دہی اکبر ایس بابر نے شروع میں کی تھی وہ تو سارے کیس سے اب صاف باہر ہیں۔ یا بڑی صفائی سے کر دیے گئے ہیں۔ نہ میڈیا ان پر بات کر رہا ہے نہ کوئی اور۔  تلوار تو صرف عمران خان کے سر پر ہے یا تحریک انصاف کے بطور جماعت مستقبل پر۔ ان کا کیا بگڑا ہے۔ وہ پتلی گلی سے نکل کر کسی اور جماعت میں گھس جائیں گے۔ اصل میں تو کارروائی ان کے خلاف ہونا تھی۔ اگر نہیں ہوتی تو  سیاسی کھیل میں تحریک انصاف یا عمران خان رہے نہ رہے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ کرپٹ عناصر تو ادھر ہی ہیں۔

متعلقہ عنوانات