اچھا لگتا ہے مجھے!
پھول چننا بارشوں میں بھیگنا انجان رستوں، وادیوں میں گھومنا دریا کنارے ریت پر چلنا ہوا کے گیت سننا پہلی پہلی برف باری کی خوشی میں برف کے گولے بنانا اچھا لگتا ہے مجھے ہر شام ٹیریس پر کھڑے ہو کر سنہری دھوپ لینا خواب بننا!!
پھول چننا بارشوں میں بھیگنا انجان رستوں، وادیوں میں گھومنا دریا کنارے ریت پر چلنا ہوا کے گیت سننا پہلی پہلی برف باری کی خوشی میں برف کے گولے بنانا اچھا لگتا ہے مجھے ہر شام ٹیریس پر کھڑے ہو کر سنہری دھوپ لینا خواب بننا!!
اپنی انا کے گنبد بے در میں بند ہے لیکن بزعم خود وہ فلک تک بلند ہے ہر منزل ان کے واسطے بس اک زقند ہے وہ لوگ اپنا عزم ہی جن کا سمند ہے آتا ہے بار بار فریب خلوص میں کیا سادہ لوح اپنا دل درد مند ہے جو التہاب آتش غم سے ہے نالہ کش وہ دل نہیں چٹختا ہوا اک سپند ہے شاید مآل خندۂ گل ہے نگاہ ...
گل کی خونیں جگری یاد آئی پھر نسیم سحری یاد آئی آج فرمان رہائی پہنچا آج بے بال و پری یاد آئی دشمن آباد رہیں جن کے طفیل اپنی عالی گہری یاد آئی جب کسی نے مری آنکھیں سی دیں تب مجھے دیدہ وری یاد آئی ساز جب ٹوٹ گئے ہم نفسو اب تمہیں نغمہ گری یاد آئی کبھی روشن جو ہوئی شمع بہار باغ کی ...
دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات غم دوراں میں ہے عکس غم یار آج کی رات کوئی منصور سے جا کر یہ کہو ہم نفسو ہوں بہ تعزیر خموشی سر دار آج کی رات غم کے محور پہ ہیں ٹھہرے ہوئے افلاک و نجوم میری محفل میں نہیں وقت کو بار آج کی رات نہ مکاں آج ہے ثابت نہ زماں ہے سیار نہ خزاں شعبدہ آرا نہ ...
چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں وہ تو بچارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں جن گلیوں میں ہم نے سکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں ان گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھرتے ہیں روپ سروپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھرتے ...
کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں پھر ان سے عرض وفا کا ارادہ رکھتے ہیں یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ دل شگفتہ جبین کشادہ رکھتے ہیں خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں دکان بادہ فروشاں کے صحن میں عابدؔ فرشتے خلد کا اک در کشادہ رکھتے ہیں
ہم بن غم یار بھی جئے ہیں مرنے کے بڑے جتن کئے ہیں مخفی تجھ سے بھی ہیں غم یار کچھ وار جو دل نے سہہ لیے ہیں دل سے بھی چھپا کے ہم نے رکھے کچھ چاک جو عمر بھر سئے ہیں کچھ خون وفا سے کچھ حنا سے کیا رنگ بہار نے لیے ہیں افسوس ہماری سخت جانی احباب نے بھی گلے کئے ہیں گلشن میں عجب ہوا چلی ...
غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا لذت عرض وفا راحت جاں ہے کہ جو تھی دل تپاں اشک رواں شوق جواں ہے کہ جو تھا شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا میرے پاؤں سے ہیں الجھے ہوئے ریشم کے سے تار ہمدمو یہ تو وہی ...
گردش جام نہیں رک سکتی جو بھی اے گردش دوراں گزرے صبح محشر ہے بلائے ظاہر کسی صورت شب ہجراں گزرے کوئی برسا نہ سر کشت وفا کتنے بادل گہر افشاں گزرے ابن آدم کو نہ آیا کوئی راس کئی آذر کئی یزداں گزرے اے غم یار تری راہوں سے عمر بھر سوختہ ساماں گزرے وہ جو پروانے جلے رات کی رات منزل ...
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی ان کے مرنے کا نام تاج محل کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی سانوری نار مدھ بھری چنچل نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار کیسے کیسے برس گئے بادل پیار کی راگنی انوکھی ہے اس میں لگتی ہیں سب سریں کومل بن پئے انکھڑیاں ...