شاعری

تنگ و محدود بہت حسن نظر تھا پہلے

تنگ و محدود بہت حسن نظر تھا پہلے زلف و رخسار پہ موقوف ہنر تھا پہلے آنے جانے کا سروکار کہاں سے آیا کوئی جادہ نہ مسافر نہ سفر تھا پہلے اب بھی گردش میں مری دھوپ رہا کرتی ہے یہی سایہ جو ادھر ہے یہ ادھر تھا پہلے در و دیوار سے آزاد بیاباں پھر ہو اپنے شوریدہ سروں کا یہی گھر تھا ...

مزید پڑھیے

ان ہی پیڑوں پہ کہ سایوں کا گماں رکھتے ہیں

ان ہی پیڑوں پہ کہ سایوں کا گماں رکھتے ہیں منحصر اپنے لیے آگ دھواں رکھتے ہیں جیسے پوشاک پہ پوشاک پہن کر نکلیں خود کو آزاد تکلف سے کہاں رکھتے ہیں ہم بھی انگور کی شاخوں کی طرح اٹھ اٹھ کر ہائے تقدیر بدست دگراں رکھتے ہیں زلزلے آئیں گے تسلیم بجا لائیں گے زہد پندار ابھی کوہ گراں ...

مزید پڑھیے

درخت

لفظ روز اگ آتے ہیں جنہیں میں اپنے سینے سے کھرچ کھرچ کر کاغذ پر جمع کر دیتا ہوں تاکہ انہیں قطع کیا جا سکے جو بھی میرے لفظ کاٹتا ہے اس کے ہاتھوں پر میرے لہو کی بوند سرکنے لگتی ہے اسے میرے خون سے پہچان لیا جاتا ہے میں ان لفظوں سے کچھ اور بنانا چاہتا تھا مثلاً ایک درخت جسے میں ایک ...

مزید پڑھیے

چارلیؔ چپلن

چارلیؔ چپلن نے کہا اسے بارش میں چلنا پسند ہے کیونکہ تب کوئی اس کے آنسو نہیں دیکھ پاتا اس نے چار شادیاں کیں اور بارہ معاشقے عورتیں اس پر فدا تھیں وہ انہیں کسی بھی وقت جوائے رائڈ دے سکتا تھا جب چارلیؔ کے پیروں میں پھٹے ہوئے جوتے ہوا کرتے تھے ایک عورت نے اس کی محبت مسترد کر دی ...

مزید پڑھیے

اگر یہ زندگی تنہا نہیں ہوتی

اگر یہ زندگی تنہا نہیں ہوتی تو اس کو خوبصورت پھول میں تبدیل کرنے کے لیے کترا نہ جا سکتا کبھی اس سے کوئی کاغذ کی کشتی جوڑ کر گہرے سمندر کی طرف بھیجی نہ جا سکتی سفر کے درمیاں آئی اک انجانی سرائے میں ذرا سے دام کے بدلے اسے ہارا نہ جا سکتا اگر یہ زندگی تنہا نہیں ہوتی تو اس کو مختلف ...

مزید پڑھیے

یادش بخیر سایہ فگن گھر ہی اور تھا

یادش بخیر سایہ فگن گھر ہی اور تھا لوٹا مسافرت سے تو منظر ہی اور تھا دیکھا عجیب ربط عناصر کے درمیاں بدلا جو آسماں تو سمندر ہی اور تھا پھر یوں ہوا کہ اپنے ہی محور سے ہٹ گئی ورنہ تو اس زمیں کا مقدر ہی اور تھا وہ یوں لگا ہے طرہ و دستار کے بغیر جیسے میان دوش وہاں سر ہی اور تھا وہ ...

مزید پڑھیے

ہندو مسلم

قیامت کی گھڑی ہے انقلابی صور بجتے ہیں کہیں بجلی کڑکتی ہے کہیں بادل گرجتے ہیں جو حوریں خیر و شر کی لڑتی آئی ہیں وہ لڑتی ہیں تمدن کانپتا ہے امتیں بنتی بگڑتی ہیں پرانی سطوتوں کی بارگاہیں ہیں تزلزل میں نیا دور آ رہا ہے اب زمانہ کے تسلسل میں وہ روٹھے منتے جاتے ہیں جنہیں مننا نہ آتا ...

مزید پڑھیے

ہم اپنی زندگی کے لیے شکر گزار ہیں

اپنی زندگی کے لیے ہم ایک قتل کے شکر گزار ہیں جسے مؤخر کر دیا گیا ورنہ ایک محبت تھی جو ہم نے دل میں چھپا کر رکھی ہوئی تھی اور ایک نفرت تھی جس کا پتا ہم کسی کو نہیں لگنے دیتے تھے ورنہ ہم نے وہی قصور کیے تھے جو مارے جانے والوں نے کیے تھے ورنہ ہمارے باپوں ہمارے جانے کی وجہ ہمارے برتھ ...

مزید پڑھیے

اجتماعی مباشرت

تاریخ سے اجتماعی مباشرت ہم نے کھیل سمجھ کر شروع کی پھر شور بڑھتا گیا اور ہمارا شوق دیکھ کر ہماری بریدہ تاریخ ہماری زوجیت میں دی گئی اب اس کے بچے کتوں سے زیادہ ہیں

مزید پڑھیے

عورتیں نہیں جانتیں

دل کی دیواروں سے اداسی کو کھرچ کر ایک نظم میں اکٹھا کرنا عورتوں کا پسندیدہ کھیل نہیں عورتوں کو وہ کھیل پسند نہیں جن کے آخر میں تالیاں نہ بجائی جا سکیں عورتوں کو پسند نہیں لوگ جو اپنا دل ٹکڑے کر کے پھینک رہے ہوتے ہیں جو زندگی کی کتاب میں حاشیوں پر درج ہوتے ہیں اور فٹ نوٹ سے اوپر ...

مزید پڑھیے
صفحہ 62 سے 5858