شاعری

گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے

گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے الاؤ ٹھنڈے ہیں لوگوں نے جاگنا چھوڑا کہانی ساتھ ہے لیکن کسے سنائیں گے سنا ہے آگے کہیں سمتیں بانٹی جاتی ہیں تم اپنی راہ چنو ساتھ چل نہ ...

مزید پڑھیے

ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہوگا

ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہوگا چلیں گے ساتھ تو دنیا کا سامنا ہوگا وہ ایک شخص جو پتھر اٹھا کے دوڑا تھا ضرور خواب کی کڑیاں ملا رہا ہوگا ہمارے بعد اک ایسا بھی دور آئے گا وہ اجنبی ہی رہے گا جو تیسرا ہوگا خزاں پسند ہمیں ڈھونڈنے کو نکلے ہیں ہمارے درد کا قصہ کہیں سنا ہوگا جو ...

مزید پڑھیے

دور تک پھیلا سمندر مجھ پہ ساحل ہو گیا

دور تک پھیلا سمندر مجھ پہ ساحل ہو گیا لوٹ کر جانا یہاں سے اور مشکل ہو گیا داخلہ ممنوع لکھا تھا فصیل شہر پر پڑھ تو میں نے بھی لیا تھا پھر بھی داخل ہو گیا خواب ہی بازار میں مل جاتے ہیں تعبیر بھی پہلے لوگوں سے سنا تھا آج قائل ہو گیا اس ہجوم بے کراں سے بھاگ کر جاتا کہاں تم نے روکا تو ...

مزید پڑھیے

برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا

برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا جہاں لے جانا ہے لے جائے آ کر ایک پھیرے میں کہ ہر دم کا تقاضائے ہوا اچھا نہیں لگتا سمجھ میں کچھ نہیں آتا سمندر جب بلاتا ہے کسی ساحل کا کوئی مشورہ اچھا نہیں لگتا جو ہونا ہے سو دونوں جانتے ہیں پھر شکایت ...

مزید پڑھیے

وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے

وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے امید جن سے تھی وضع جنوں نبھانے کی وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے ستارے جذب ہوئے گرد راہ میں کیا کیا خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے خزاں سے ...

مزید پڑھیے

نوائے شوق میں شورش بھی ہے قرار بھی ہے

نوائے شوق میں شورش بھی ہے قرار بھی ہے خرد کا پاس بھی خوابوں کا کاروبار بھی ہے ہزار بار بہاروں نے دکھ دیا مجھ کو نہ جانے کیا کیا ہے بہاروں کا انتظار بھی ہے جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بدنام کچھ اہل شوق کو دار و رسن سے پیار بھی ہے مرے لہو میں اب اتنا بھی رنگ کیا ہوتا طراز شوق میں ...

مزید پڑھیے

تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں

تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں شاعری زیست کے زخموں کی تلافی تو نہیں سایۂ گل میں ذرا دیر جو سستائے ہیں سایۂ دار سے یہ وعدہ خلافی تو نہیں اپنی دنیا سے ملی فرصت یک جست ہمیں آسماں کے لیے اک جست ہی کافی تو نہیں کسی چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہ کرو دیکھ لو اس میں کوئی شعبدہ بافی ...

مزید پڑھیے

خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے

خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے ملے جو لوگ وہ اپنے نشے میں مست ملے کہیں خود اپنی درستی کا دکھ نہیں دیکھا بہت جہاں کی درستی کے بندوبست ملے کہیں تو خاک نشیں کچھ بلند بھی ہوں گے ہزاروں اپنی بلندی میں کتنے پست ملے یہ سہل فتح تو پھیکی سی لگ رہی ہے مجھے کسی عظیم مہم میں کبھی شکست ...

مزید پڑھیے

ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے

ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے تو لب پہ کتنے ہی پیاسوں کا نام آیا ہے کہاں کا نور یہاں رات ہو گئی گہری مرا چراغ اندھیروں کے کام آیا ہے یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے بڑے دنوں میں یہ طرز کلام آیا ہے بڑھوں ...

مزید پڑھیے

لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں

لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں اور فن کار تو تنہا ہی رہا کرتے ہیں وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار غزل دیر تک اس کی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں کوئی جادو کوئی جلوہ کوئی مستی کوئی موج ہم انہیں چند سہاروں پہ جیا کرتے ہیں دن پہ یاروں کو اندھیرے کا گماں ہوتا ہے ہم اندھیرے میں کرن ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5833 سے 5858