سر کو آواز سے وحشت ہی سہی
سر کو آواز سے وحشت ہی سہی اور وحشت میں اذیت ہی سہی خاک زادی ترے عشاق بہت میں تری یاد سے غارت ہی سہی وہ کہاں ہیں کہ جو مصلوب نہ تھے میری مٹی میں بغاوت ہی سہی آہ و آہنگ و اہانت کے کنار اے مری پیاس پہ تہمت ہی سہی خود سے میثاق غلط تھا میرا اے ترے خواب ضرورت ہی سہی عشق اے عشق عزادار ...