شاعری

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں

بھینی خوشبو سلگتی سانسوں میں بجلیاں بھر گئی ہیں ہاتھوں میں صرف تیرا بدن چمکتا ہے کالی لمبی اداس راتوں میں کیا کیا چھینے گا اے امیر شہر اتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں بند ہیں آج سارے دروازے آگ روشن ہے سائبانوں میں وہ سزا ...

مزید پڑھیے

پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے

پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے مگر وہ لوٹ کے زلفوں کی سمت آتا ہے سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے جو مشکلوں کے لیے حل تلاش لایا تھا کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ...

مزید پڑھیے

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے جو مڑ کے دیکھا تو ہو جائے گا بدن پتھر کہانیوں میں سنا تھا سو بھوگنا ہے مجھے میں تجھ کو بھول نہ پایا یہی غنیمت ہے یہاں تو اس کا بھی امکان لگ رہا ہے مجھے میں سرد جنگ کی عادت نہ ڈال پاؤں گا کوئی محاذ پہ ...

مزید پڑھیے

کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا

کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشا تھا ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا نہ کوئی ظلم نہ ہلچل نہ مسئلہ کوئی ابھی کی بات ہے میں حادثے اگاتا ...

مزید پڑھیے

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں سارے تماشے ختم ہوئے لوگ جا چکے اک ہم ہی رہ گئے جو فریب سحر میں ہیں ایسی تو کوئی خاص خطا بھی نہیں ہوئی ہاں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں اب کے بہار دیکھیے کیا نقش چھوڑ جائے آثار بادلوں کے نہ پتے ...

مزید پڑھیے

آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں

آنگن میں چھوڑ آئے تھے جو غار دیکھ لیں کس حال میں ہے ان دنوں گھر بار دیکھ لیں جب آ گئے ہیں شہر طلسمات کے قریب کیا چاہتی ہے نرگس بیمار دیکھ لیں ہنسنا ہنسانا چھوٹے ہوئے مدتیں ہوئیں بس تھوڑی دور رہ گئی دیوار دیکھ لیں عرصے سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں مہلت ملے تو آج کا اخبار دیکھ ...

مزید پڑھیے

دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک

دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک چوباروں کے سر پر خاک شہر ملامت آ پہنچا سارے مناظر عبرت ناک دریاؤں کی نذر ہوئے دھیرے دھیرے سب تیراک تیری نظر سے بچ پائیں ایسے کہاں کے ہم چالاک دامن بچنا مشکل ہے رستے جنوں کے آتش ناک اور کہاں تک صبر کریں کرنا پڑے گا سینہ چاک

مزید پڑھیے

اتنا کیوں شرماتے ہیں

اتنا کیوں شرماتے ہیں وعدے آخر وعدے ہیں لکھا لکھایا دھو ڈالا سارے ورق پھر سادے ہیں تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا سوچ کے اب پچھتاتے ہیں ریت محل دو چار بچے یہ بھی گرنے والے ہیں جائیں کہیں بھی تجھ کو کیا شہر سے تیرے جاتے ہیں گھر کے اندر جانے کے اور کئی دروازے ہیں انگلی پکڑ کے ساتھ ...

مزید پڑھیے

یہ بھی نہیں بیمار نہ تھے

یہ بھی نہیں بیمار نہ تھے اتنے جنوں آثار نہ تھے لوگوں کا کیا ذکر کریں ہم بھی کم عیار نہ تھے گھر میں اور بہت کچھ تھا صرف در و دیوار نہ تھے تیری خبر مل جاتی تھی شہر میں جب اخبار نہ تھے پہلے بھی سب بکتا تھا خوابوں کے بازار نہ تھے سب پر ہنسنا شیوہ تھا جب تک خود اس پار نہ تھے موت کی ...

مزید پڑھیے

خبر تو دور امین خبر نہیں آئے

خبر تو دور امین خبر نہیں آئے بہت دنوں سے وہ لشکر ادھر نہیں آئے یہ بات یاد رکھیں گے تلاشنے والے جو اس سفر پہ گئے لوٹ کر نہیں آئے طلسم اونگھتی راتوں کا توڑنے والے وہ مخبران سحر پھر نظر نہیں آئے ضرور تجھ سے بھی اک روز اوب جائیں گے خدا کرے کہ تری رہ گزر نہیں آئے سوال کرتی کئی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5827 سے 5858