سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
سارے عالم میں تیری خوشبو ہے اے میرے رشک گل کہاں تو ہے برچھی تھی وہ نگاہ دیکھو تو لہو آنکھوں میں ہے کہ آنسو ہے ایک دم میں ہزار دفتر طے چشم حسرت غضب سخن گو ہے تو ہی تو اور بال بال اپنا فاختہ اور شور کوکو ہے تجھ کو دیکھے پھر آپ میں رہ جائے دل پر اتنا کسی کو قابو ہے جوش اشک و تصور ...